Maktaba Wahhabi

258 - 313
محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ عملی اعتبار سے جو ظالم ہیں وہ بھی اس شرف وفضل میں شامل ہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سابقہ تمام مفسرین کی آرا کو بڑی جامعیت سے یوں بیان کیا ہے کہ ’’ظالم‘‘ سے مراد وہ جو بعض واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں اور بعض محرمات کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ ’’مقتصد‘‘ وہ ہیں جو واجبات کی پابندی کرتے ہیں محرمات سے اجتناب کرتے ہیں۔ البتہ بعض مستحباب کو چھوڑ دیتے اور بعض مکروہات میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔۔ ’’سابقین‘‘ وہ ہیں جو واجبات ومستحبات کا اہتمام کرتے ہیں اور محرمات ومکروہات سے بچتے ہیں حتی کہ بعض مباحات کو بھی کسی شبہ کی بنا پر خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ دوسری تاویل: اس کے برعکس حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ظالم سے مراد کافر ہے۔ یہی قول ان کے شاگرد حضرت عکرمہ سے منقول ہے۔ یہی رائے امام مجاہد اور حسن بصری کی بھی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہاں جن تین قسم کے افراد کا ذکر ہے یہ اسی طرح ہے جیسے سورۃ الواقعہ میں سابقین، اصحاب المیمنہ اور اصحاب المشئمہ کا ہے۔ یعنی کافر اصحاب المشئمہ ہیں جن کے بائیں ہاتھ نامۂ اعمال ہوگا۔ المقتصدین اصحاب المیمنہ ہیں جن کے دائیں ہاتھ نامۂ اعمال ہوگا اور سابقین مقربین ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ اور بعد کی آیت میں ’’یدخلونہا‘‘ کی ضمیر انہی دو کے لیے سمجھتے ہیں۔ مگر اس پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ مقتصد اور سابق کے ساتھ ظالم کو بھی ’’اصطفینا‘‘ میں شمار کیا گیا ہے لہٰذا کافر منتخب بندوں میں سے کیوں کر ہوسکتا ہے؟ جس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ’’ فمنہم‘‘ میں تقسیم ’’عباد‘‘ کی طرف ہے یعنی ہمارے بندوں میں سے کچھ ظالم ہیں یعنی کافر ہیں۔ مگر یہ بھی تکلف سے خالی نہیں۔ تیسری تاویل ایک رائے یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ ’’اصطفینا من عبادنا‘‘ سے مراد بنو اسماعیل لیے جائیں جو بنو اسرائیل کے بعد اس کتاب کے مخاطب تھے جنھیں قرآنِ مجید میں
Flag Counter