کے شایانِ شان ہے۔‘‘ دو فرشتے بہت جلدی کررہے تھے اور نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ ان کو کیوں کر لکھیں۔ وہ آسمان پر گئے تو اللہ ربّ العزت سے کہنے لگے اے اللہ! تیرے بندے نے ایک بات کہی ہے ہم نہیں سمجھتے کہ انہیں کیوں کر لکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اس کے بندے نے کیا کہا ہے۔) میرے بندے نے کیا کہا ہے؟ انہوں نے کہا اے اللہ! اس نے یوں کہا ہے: ’’يَا رَبِّ لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلَالِ وَجْهِكَ وَلِعَظِيمِ سُلْطَانِكَ ‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’اَکْتُبَاہَا کَمَا قَالَ عَبْدِیْ حَتَّی یَلْقَانِیْ فَاَجْزِیَہِ بِہَا ‘[1] ’’جس طرح میرے بندے نے کہا تم اسی طرح لکھ دو، جب وہ مجھے ملے گا تو میں ان کی جزا اسے دوں گا۔‘‘ علامہ المنذری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کی سند متصل اور راوی ثقہ ہیں۔ مگر صدقہ بن بشیر کے بارے میں جرح وتعدیل مجھے مستحضر نہیں۔ علامہ البانی نے ضعیف الترغیب میں اسے ذکر کرکے صدقہ کو مجہول قرار دیا ہے۔ حالاں کہ امام ابن ماکولا نے الاکمال[2] میں اسے ثقہ کہا ہے۔ لہٰذا یہ روایت ضعیف نہیں بلکہ صحیح ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا پر مشتمل ایک دعا قبل ازیں ’’الحمد للہ کہنا بہت بڑی نعمت ‘‘ کے ضمن میں بھی نقل کر آئے ہیں۔ ہم انہی کلمات کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں۔ شائقین الترغیب والترہیب اور ادعیہ مسنونہ پر مشتمل دیگر کتب کی مراجعت فرمائیں۔ (۱۱) الحمد اللہ کہنے کے بارے میں اسلاف کا عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حمد وثنا کا کس قدر اہتمام فرماتے تھے اس کا بقدر ضرورت ذکر ہم نے کیا۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ کی حمد وثنا کرتے، با کثرت تحمید وتسبیح پڑھنے کی ترغیب دیتے، مختلف اور اچھے سے اچھے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی تعریف میں رطب اللسان رہنے کی تلقین وتاکید فرماتے تھے۔ |