Maktaba Wahhabi

257 - 313
سہل بن عبداللہ تستری فرماتے ہیں: السابق عالم ہے، مقتصد متعلم ہے اور ظالم جاہل ہے۔ ذوالنون مصری کہتے ہیں: ظالم جو صرف زبان سے ذکر کرنے والا ہے، مقتصد دل سے ذکر کرنے والا اور سابق تو اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔ الانطاکی کہتے ہیں: ظالم صاحب الاقوال اور مقتصد صاحب الافعال اور سابق صاحب الاحوال ہے۔ ابن عطاء کہتے ہیں: ظالم وہ جو اللہ سے دنیا کے لیے محبت کرے، مقتصد وہ جو آخرت کے لیے محبت کرے اور سابق وہ جو فنا فی اللہ ہے۔ اللہ کی مراد ہی اس کی مراد ہوتی ہے۔ بعض نے کہا کہ ظالم وہ ہے جسے مال دیا گیا مگر وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا، مقتصد وہ جو خرچ کرتا ہے اور سابق وہ ہے جو مال نہ ہوتے ہوئے بھی شکر کرتا اور ایثار کرتا ہے۔ کہتے ہیں دو اللہ والے باہم ملے تو ایک نے پوچھا بصرہ کے بھائیوں کا کیا حال ہے۔ دوسرے نے جواب دیا: خوش ہیں، اگر مل جائے تو شکر کرتے ہیں نہ ملے تو صبر کرتے ہیں۔ اس نے کہا یہ تو ہمارے بلخ کے کتے بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں عبادت گزاروں کی حالت یہ ہے کہ نہ ملے تب بھی شکر کرتے اور اگر کچھ مل جائے تو ایثار کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں سابق وہ جو مسجد میں اذان سے پہلے آتے ہیں، مقتصد وہ جو اذان کے بعد آتے ہیں اور ظالم وہ جو اقامتِ صلاۃ کے بعد آتے ہیں۔ اس نوعیت کے اور بہت سے اقوال ہیں جنھیں علامہ قرطبی، علامہ شوکانی اور علامہ آلوسی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ یہاں استیعاب مقصود نہیں اور نہ ہی ان کی صحت وصواب سے بحث ہے بلکہ بتلانا یہ ہے کہ نتیجہ ان سب کا یہی ہے کہ اس سے مراد امتِ محمدیہ کے افراد ہیں۔ ’’ظلم‘‘ کا اطلاق صغیرہ، کبیرہ گناہوں پر ہوتا ہے اور کفر وشرک پر بھی۔ مگر یہاں ظلم سے مراد گناہ ہے کفر وشرک نہیں۔ اس لیے سابقین اور مقتصدین کے ساتھ گناہگاروں کا ذکر ’’اصطفاء‘‘ کے اور جنت میں جانے کے منافی نہیں۔ اور یہ امتِ
Flag Counter