مرتکب ہے۔ یہی جمہور مفسرین کی رائے ہے۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے یہ چھ صحابہ کا قول ہے اور یہی تمہارے لیے کافی ہے۔ یہی ایک قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے۔ امت کے ظالموں کی بخشش ہوجائے گی، مقتصدین سے آسان حساب ہوگا اور سابقین بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ امام ابن جریر اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو درست قرار دیا ہے۔ اور حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی اسی کی وضاحت ہے، فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے کہ اس آیت میں سبقت لے جانے والے وہ ہیں جو بغیر حساب جنت میں جائیں گے۔ اور مقتصدین سے آسان آسان حساب ہوگا اور جو اپنے آپ پر ظلم کریں گے وہ میدانِ محشر میں دیر تک کھڑے رہیں گے پھر اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت فرمائے گا۔ مسند امام احمد میں یہ حدیث ثقہ راویوں سے مروی ہے۔ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے اس کے راوی الصحیح کے ہیں۔[1] حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے جامع ترمذی [2] میں ہے کہ یہ سب ایک مترتبہ میں ہیں اور سب جنت میں جائیں گے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے دیگر شواہد کے تناظر میں اسے حسن قرار دیا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کے شواہد اور طرق نقل کیے ہیں۔[3] اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی الدر المنثور [4] میں ان روایات کو بیان کیا ہے۔ جن سے اسی تفسیر کی تائید ہوتی ہے اور یہی جمہور مفسرین کی رائے ہے۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے طریق الھجرتین میں اس پر بڑی تفصیل سے نہایت نفیس بحث کی ہے اور جو حضرات اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں ان کے اعتراضات کا جائزہ بھی لیا ہے شائقین طریق الھجرتین[5] ملاحظہ فرمائیں یہاں اس تفصیل کی گنجائش نہیں۔ اسی حوالے سے اسلاف کے اقوال مختلف اور اس کی متنوع تعبیرات ہیں۔ مثلاً |