Maktaba Wahhabi

255 - 313
ایک کوفہ، ایک بحرین، ایک شام بھجوا دیا اور ایک نسخہ مدینۂ طیبہ میں رکھا۔ آج امت کے پاس وہی مصحف پاک ہے جو ان صحابۂ کرام کی مساعیِ جمیلہ سے جمع ہوا تھا اور صحابۂ کرام سے اختلاف کے باوجود اور ان کی مساعیِ جمیلہ کی ناسیاسی کے باوصف روافض کے پاس بھی وہی مصحف ہے جو ان صحابۂ کرام نے جمع کیا ہے۔ اہلِ بیت کے فضائل ومراتب بجا ہیں مگر حقیقت وہی ہے جسے مختصراً ہم نے عرض کردیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے امتِ محمدیہ کو قرآنِ پاک کا ’’وارث‘‘ بنایا ہے۔ اس میں ایک معنویت اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ وارث کو جو میراث ملتی ہے وہ بغیر کسی احسان اور معاوضہ کے ملتی ہے یہ وارث کے کسی عمل اور کوشش کے نتیجہ میں نہیں ہوتی۔ بالکل اسی طرح کتابِ حق کی وراثت امتِ محمدیہ کو کسی عمل ومحنت کے نتیجہ میں نہیں دی گئی بلکہ یہ خاص اللہ کی عطا اور مہربانی کا نتیجہ ہے۔ اس امت سے پہلے بنی اسرائیل ’’الکتاب‘‘ کے وارث تھے۔ ﴿وَ اَوْرَثْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ الْکِتٰبَ﴾[1] ’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا۔‘‘ مگر مسلسل ان کی نافرمانیوں اور انبیائے کرام کی مخالفتوں کے نتیجے میں یہ منصب ان سے چھن گیا، اب یہ ’’کتابِ حق‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی اور اس کا وارث ان کی امت کو بنایا۔ جس میں ان کا اعزاز بھی ہے اور امتحان بھی کہ کیا یہ اس وراثت کے امین بنتے ہیں یا نہیں۔ ﴿فَمِنْہُمْ ظَالِم لِنَفْسِہِ﴾ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جو اپنے بندوں کے بارے میں علیم وخبیر ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ قرآن کے ان وارثوں کی حالت کیا ہوگی۔ چناں چہ فرمایا ان میں تین قسموں کے افراد ہیں۔ ظالم، مقتصد، سابق۔ ان تینوں کے بارے میں آرا نہایت مختلف ہیں۔ حضرت عمر، عثمان، ابوالدرداء، ابن مسعود، عقبہ بن عمرو اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ ظالم سے مراد فاسق اور صغائر کا
Flag Counter