خَیْرَ الْاُمَمِ‘[1] ’’مجھے ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو دیگر انبیائے کرام میں سے کسی کو نہیں دی گئیں۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! وہ چیزیں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: میری مدد رعب سے کی گئی ہے، مجھے زمین کی چابیاں دی گئی ہیں، میرا نام احمد رکھا گیا ہے، مٹی میرے لیے طہارت کا باعث بنائی گئی اور میری امت تمام امتوں سے بہتر قرار دی گئی ہے۔‘‘ حافظ ابن کثیر نے تفسیر [2] میں اور حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔[3] ان احادیثِ مبارکہ سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی عظمت اور مرتبت معلوم ہوتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس کے اوّلین مصداق تمام صحابۂ کرام ہیں۔ مگر روافض ’’اصطفاء‘‘ کا مصداق اہلِ بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمۂ اہلِ بیت ہی کو قرار دیتے ہیں۔ حالاں کہ اہلِ بیت تو صحابہ کرام میں شامل ہیں اور اہلِ سنت جب صحابہ کرام کہتے ہیں تو ان میں اہلِ بیت شامل ہوتے ہیں۔ رہے باقی ائمۂ اہلِ بیت تو وہ بھی امت کے افراد ہیں ان کا اختصاص امرِ واقع کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآنِ پاک ایک جگہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جمع کروایا۔ جو ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس، پھر امّ المومنین سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہا۔ حضرت عثمان غنی کے دور میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بن یمان کے مشورہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے۔ یہی مصحف طلب کرکے حضرت زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث رضی اللہ عنہم کو دیا اور ان سے اسی مصحف کے مختلف نسخے لکھوائے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا مصحف انہیں واپس کردیا۔ اور ان نسخوں کو دوسرے شہروں میں بھجوا دیا۔ جیسا کہ صحیح بخاری [4] وغیرہ میں اس کی تفصیل ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک نسخہ مکۂ مکرمہ میں، ایک بصرہ، |