خوف ورجا کے مابین ہے پھر سابقین کا تاکہ کوئی بھی اللہ کے عذاب سے بے خوف نہ ہو۔ اگرچہ وہ سب کلمۂ توحید لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی وجہ سے جنت میں جائیں گے۔ ۵: سابق کو اس لیے مؤخر کیا کہ اس کے بعد جنت کا ذکر ہے تاکہ اس کا جنت سے قرب ظاہر کیا جائے جیسے سورۃ الحج: ۴۰ میں مساجد کو صوامع اور بیع سے مؤخر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ذکر اللہ کا ذکر ہے۔ یہاں بھی مساجد کو اللہ کے ذکر سے سب سے زیادہ مناسبت اور قرب کی بنا پر مؤخر ذکر کیا گیا ہے۔ ﴿مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ ﴾ مقتصد سے مراد میانہ رو ہے یعنی وہ مومن جس سے نیکیوں کے ساتھ گناہوں کا ارتکاب بھی ہوجاتا ہے۔ جیسے سورۃ توبہ میں فرمایا ہے: ﴿وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلااًا صَالِحًا وَّ ٰاخَرَ سَیِّئًاط عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّّتُوْبَ عَلَیْہِمْط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ [1] ’’اور کچھ دوسرے ہیں جنھوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا، انھوں نے کچھ عمل نیک اور کچھ دوسرے برے ملا دیے، قریب ہے کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہوجائے، یقینا اللہ بے حد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔‘‘ یعنی یہ اللہ کے فرماں بردار بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان سے خطائیں بھی ہوجاتی ہیں اور وراثت کی ادائیگی میں بھی وہ میانہ رو ہیں، دینِ حق کی دعوت وتبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں مگر کبھی اغماض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ’’ مِنْهُمْ سَابِقٌ ‘‘ سے مراد تمام امورِ خیر میں سبقت لے جانے والے ہیں جن میں ایمان اور ہجرت میں سبقت لے جانے والے اور اوّلین انصارِ مدینہ اوّل وہلہ میں شامل ہیں۔ جن کا ذکر خیر سورۃ التوبہ آیت نمبر ۱۰۰ میں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے امورِ خیر |