Maktaba Wahhabi

58 - 313
قرآنِ مجید میں ہے: ﴿الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاط مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ط فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ﴾ [1] ’’وہ جس نے سات آسمان اوپر نیچے پیدا فرمائے، رحمان کے پیدا کیے ہوئے میں تو کوئی کمی بیشی نہیں دیکھے گا۔ پس نگاہ کو لوٹا، کیا تجھے کوئی کٹی پھٹی جگہ نظر آتی ہے۔‘‘ ’’کمأۃ‘‘ کھمبی کو ’’فَطَرٌ‘‘ بھی کہتے ہیں کیوں کہ وہ زمین کو پھاڑ کر باہر نکلتی ہے۔ اسی سے فطر وافطار، روزہ افطار کرنا کہا جاتا ہے۔ ایک سورت کا نام ’’الانفطار‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اِذَا السَّمَائُ انْفَطَرَتْ﴾ ’’جب آسمان پھٹ جائے گا۔‘‘ آج جس آسمان میں کوئی پھٹن، کوئی شگاف وخلل نظر نہیں آتا۔ ایک وقت آئے گاکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔ ’’فَطَرَ‘‘ کے معنی ابتدا ومبتدا کے بھی ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں ’’فاطر‘‘ کے معنی نہیں سمجھتا تھا۔ دو اعرابی آئے دونوں ایک کنویں کے بارے میں باہمی اختلاف کررہے تھے ان میں سے ایک نے کہا: ’’اَنَا فَطَرْتُھَا‘‘ میں نے اس کی ابتدا کی ہے، میں نے اسے کھودا ہے۔ جس سے ’’فاطر‘‘ کے معنی کی وضاحت ہوگئی۔ [2] لیکن اس کی سند صحیح یا حسن نہیں، سفیان بن وکیع ضعیف اور ابراہیم بن مہاجر البجلی متکلم فیہ ہے۔ تاہم ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہی معنی مراد لیے ہیں، انہوں نے فرمایا ہے: ’فَاطِرِ السَّمٰوَاتِ‘ کے معنی ’بَدِیْعُ السَّمٰوَاتِ‘ ہے۔ یعنی آسمانوں کی ابتدا کرنے والا۔[3] بعض نے فاطر کے معنی ’’خالق‘‘ بھی کیے ہیں۔ بہرحال جب اللہ تعالیٰ کی
Flag Counter