Maktaba Wahhabi

59 - 313
طرف سےفَاطِرٌ، جَاعِلٌ کے الفاظ کہے جائیں تو اس سے مراد، پیدا کرنے والا، بنانے والا، ابتدا کرنے والا ہے۔ ’’فاطر‘‘ میں ایک اور لغوی معنویت بھی پائی جاتی ہے۔ چناں چہ قرآنِ پاک میں آسمانوں اور زمین کے بارے میں آیا ہے: ﴿اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا ﴾ ،[1] ’’بے شک سارے آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انہیں (پھاڑ کر) الگ کیا۔‘‘ رَتَقَ کے معنی یکجا ایک دوسرے سے ملا ہوا ہونے کے ہیں۔ اور فَتَقَ کے معنی جدا جدا اور پھاڑنے کے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان اور زمین باہم ایک مادہ کی صورت میں ملے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پھاڑ کر دونوں کو جدا جدا کردیا۔ ایک نے آسمان کی شکل دھار لی اور دوسرے نے زمین کی ۔ایسی صورت میں لفظ ’’فاطر‘‘میں ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلنے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اور ادعیۂ مسنونہ میں اللہ تعالیٰ کی اسی صفت ’’فاطر‘‘ کے توسط سے دعا کرنے کا ذکر آیا ہے۔ اور دعا میں بھی ایک حالت سے دوسری حالت میں بدل جانا مطلوب ہوتا ہے۔ جیسے بیماری کی بجائے صحت وتندرستی، فقر ومسکنت کی جگہ تونگری اور آسودگی، بے چینی وبیقراری کی بجائے اطمینان وسکون وغیرہ۔ قرآنِ مجید میں چھ مقامات پر اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا ذکر ہوا ہے۔ چناں چہ ایک جگہ ارشاد فرمایا: ﴿قَالَتْ رُسُلُہُمْ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ﴾ [2] ’’ان کے رسولوں نے کہا، کیا اللہ کے بارے میں کوئی شک ہے جو آسمانوں اور زمین کو بنانے والا ہے۔‘‘
Flag Counter