حامدا‘ اللہ نے انہیں صابر، شاکر، حامد پایا۔ میں نے کہا آپ کا بیٹا دو ٹیلوں کے مابین درندہ جانور کے قبضہ میں دیکھا گیا اور وہ گوشت نوچ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صبر کی توفیق دے اور اس عظیم صدمہ کا اجر عطا فرمائے۔ یہ سن کر اس نے کہا: ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ َیْخُلْق مِنْ ذُرِّیَّتِیْ خَلْقاً یَعْصِیْہِ فَیُعَذِّبَہٗ بِالنَّارِ، ثُمَّ اسْتَرْجَعَ وَشَہِقَ شَہْقَہً فَمَاتَ ‘ ’’سب تعریفیں اللہ کے لیے جس نے میری اولاد میں کسی کو اپنا نافرمان نہیں بنایا کہ وہ اسے آگ میں ڈال دے پھر اس نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، سسکی لی اور فوت ہوگئے۔‘‘ میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، پریشان ہوگیا کہ اب کیا کروں انہیں چھوڑ جاتا ہوں تو درندے انہیں بھی کھا جائیں گے۔ اگر پاس بیٹھوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں نے کپڑے سے ڈھانپ دیا اور ان کے پاس بیٹھا رونے لگا۔ اسی اثنا میں چار آدمی آئے انہوں نے کہا: عبداللہ کیا معاملہ ہے؟ میں نے سارا قصہ انہیں سنا دیا۔ انہوں نے کہا: اس کا چہرا دکھاؤ۔ میں نے کپڑا چہرے سے اٹھایا تو وہ اس کی آنکھوں اور ہاتھوں کو چومنے لگے۔ میں نے کہا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا: یہ ابوقلابہ الجرمی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد ہیں۔ اللہ سے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے تھے۔ ہم نے ان کے غسل وکفن کا انتظام کیا اور دفن کردیا۔ اور میں اپنے رباط کی طرف لوٹ آیا۔ رات کو سویا تو کیا دیکھتا ہوں وہی ابوقلابہ رحمہ اللہ جنت کے باغوں میں ہیں جنت کا ریشمی لباس پہنے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں: ﴿سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ﴾ [1] |