کی طرف سے ہے۔ یہ تو منکرین ومشرکین کا طریقہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا ولیِ نعمت سمجھتا ہے اور اس سے نعمت کا طلب گار بنتا ہے، یا اس کے حصول کا سبب اپنے تدبر، لگن اور علم کو قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: ﴿فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنہُ نِعْمَۃً مِّنَّا قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ بَلْ ہِیَ فِتْنَۃٌ وَّ ٰلکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ ﴾ [1] ’’پھر جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو کہتا ہے یہ مجھے ایک علم کی بنیاد ہی پر دی گئی ہے۔ بلکہ وہ ایک آزمائش ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔‘‘ قارون کو جب موسیٰ علیہ السلام نے سمجھایا کہ دنیا کے پیچھے اپنی آخرت کو فراموش نہ کرو، اللہ نے تمہارے اوپر احسان کیا ہے تو تم احسان سے پیش آؤ اور زمین میں اپنے مال ودولت کے نشہ میں فتنہ وفساد نہ پھیلاؤ،تو اس نے کہا: ﴿قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِندِیْ ﴾ [2] ’’مجھے تو یہ ایک علم کی بنا پر دیا گیا ہے جومیرے پاس ہے۔‘‘ میرے اندر یہ اور یہ صلاحیتیں ہیں، تجارت اور حصولِ مال کا مجھے ڈھب آتا ہے۔ اسی گھمنڈ میں وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مال ودولت دی تو میں اس کا مستحق ہوں اور اللہ مجھ سے راضی ہے۔ کفار عموماً اسی گھمنڈ میں مبتلا تھے اور کہتے تھے: ﴿وَ قَالُوْا نَحْنُ اَکْثَرُ اَمْوَالاً وَّ اَوْلاَدً وَّمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ ﴾ [3] ’’اور انہوں نے کہا ہم اموال اور اولاد میں زیادہ ہیں اور ہم ہرگز عذاب دئیے جانے والے نہیں ہیں۔‘‘ |