’’جناح‘‘ کا لفظ پرندوں کے پروں کے لیے بھی وارد ہوا ہے: ﴿وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُکُم ﴾ [1] ’’اور زمین میں نہ کوئی چلنے والاہے، اور نہ کوئی اڑنے والا، جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے، مگر تمہاری طرح امتیں ہیں۔‘‘ یہاں یہ لفظ فرشتوں کے پروں کے بارے میں استعمال ہوا ہے۔ لیکن ان پروں کی کیفیت کی بجائے کمیت کو ذکر کیا ہے کہ وہ دودو پروں والے، بعض تین تین پروں والے اور بعض چارچار پروں والے ہیں۔ اور اس سے مقصود غالباً ان کی مختلف قوتِ پرواز اور سرعتِ رفتار کی طرف اشارہ ہے۔ اور یہ بھی کہ وہ سب کے سب یکساں نہیں، اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے مختلف مراتب ہیں جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں۔ یہاں فرشتوں کے پروں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ چار چار پروں کا ذکر ہوا ہے۔ لیکن یہ تعداد بس اتنی ہی نہیں۔ احادیث میں جبریل علیہ السلام کے چھ سو پروں کا ذکر بھی آیا ہے۔ چناں چہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہی پر حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے اور اس نے پورے افق کو گھیر رکھا تھا۔ [2] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا ان کے چھ سو پر تھے اور وہ پورے افق پر چھایا ہواتھا۔ [3] یزید فی الخلق ما یشاء ’’وہ اپنی مخلوق میں جیسا اضافہ چاہتا ہے کردیتا ہے۔‘‘ چار چار پروں پر ہی کیا ، اس سے زیادہ بھی اضافہ کرنے پر قادر ہے بلکہ بعض مفسرین نے ’’الخلق‘‘ کو عام رکھتے ہوئے مخلوق میں تمام مستحسن امور کو شامل کیا ہے |