بارے میں پوچھا تو پندرہ دن تک سلسلۂ وحی منقطع رہا۔ جبریل علیہ السلام آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے آنے میں تاخیر کی ہے۔ اس حوالے سے مزید ملاحظہ ہو۔[1]ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ جب کفارِ مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح،زوالقرنین اور اصحاب کہف کے بارے میں پوچھا۔پندرہ دن گزرنے کے بعدجب جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام اتنے دن آنے سے رکے رہے مجھے تو براگمان ہونے لگا تھا۔تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا:ہم تیرے رب کے حکم سے نازل ہوتے ہیں: [2] غور فرمائیے کہ جو فرشتے اپنی مرضی سے آنے جانے کی سکت نہیں رکھتے وہ انسانوں کی بگڑی بنانے پر کیونکر قادر ہوسکتے ہیں؟ اولی اجنحۃ: یہ فرشتے چوں کہ اللہ ذوالعرش المجید کے، انسانوں کی طرف، قاصد اور پیغامبر ہیں اس لیے اوپر سے نیچے تعمیل ارشاد کے لیے جلد از جلد اور فی الفور پہنچنے کے لیے اللہ نے انہیں پَر دئیے ہیں۔ کیوں کہ زمین وآسمان کے مابین فضائے بسیط کو قدم در قدم طے کرنا مشکل بھی ہے اور تعمیل امر میں تاخیر کا باعث بھی۔ ’اَجْنِحَۃ‘ جَنَاحٌ کی جمع ہے۔ ’جَنَاح‘ انسان کے بازوؤں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ قرآنِ مجید ہی میں ہے: ﴿وَ اخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ ﴾ [3] ’’اور رحم دلی سے ان کے لیے تواضع کا بازو جھکا دے۔‘‘ کسی چیز کی جانب اور پہلو کو بھی جناح کہتے ہیں۔مثلاً’’جناح السفینۃ‘‘ سفینہ کا پہلو یا ’’جناح العسکر‘‘لشکر کی جانب۔اسی معنی میں انسان کے کو جناح الانسان کہا جاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یدِ بیضاء کے حوالے سے آیا ہے: ﴿وَاضْمُمْ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ ﴾ [4]’’اپنا ہاتھ اپنے پہلو کی طرف ملا۔‘‘ |