Maktaba Wahhabi

79 - 313
لہٰذا کچھ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیائے کرام کے مابین پیغام رسانی کی ذمہ داری نبھاتے رہے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پوری کائنات کے بارے میں احکام لے جانے اور ان کی تنفیذ کرنے والے ہیں۔ جو ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ہے اسے بجا لانے میں سرِ مو کوتاہی نہیں کرتے اور یہ قاصدین اپنی مرضی سے بھی نہیں آتے جاتے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام سے کہا: مَا یَمْنَعُکَ أَنْ تَزُوْرَنَا اَکْثَرَ مِمَّا تَزُوْرُنَا؟ فَنَزَلَتْ: ﴿وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ لَہٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا[1][2] ’’جس قدر آپ ہماری ملاقات کے لیے آتے ہیں اس سے زیادہ آنے میں کیا امر مانع ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اور ہم نہیں اترتے مگر تیرے رب کے حکم کے ساتھ اسی کاہے جو ہمارے آگے ہے اور جوہمارے پیچھے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری [3] میں اور حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے[4] میں عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم سے نقل کیا ہے حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ چالیس روز تک جبریل علیہ السلام نہ آئے، ان کے آنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جبریل! تم تب آئے ہو جب میرا اشتیاق بڑھا ہے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: میں بھی آپ کی ملاقات کا مشتاق تھا لیکن ’’میں مامور‘‘ ہوں۔ اپنی مرضی سے نہیں آتا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تھا کہ سب سے اچھی جگہ اور سب سے بری جگہ اللہ کے ہاں کون سی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہیں جانتا۔ جبریل علیہ السلام سے اس بارے میں پوچھوں گا تو اس موقعہ پر جبریل علیہ السلام کے آنے میں تاخیر ہوئی۔ اسی طرح جب قریشِ مکہ نے اصحابِ کہف کے
Flag Counter