مشرکینِ مکہ کتنے خود غرض تھے کہ اپنے لیے تو بیٹے پسند کرتے تھے اور اگر ان کے اپنے گھر میں بیٹی پیدا ہونے کی اطلاع ملتی تو مارے شرم کے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیوں کا اعتقاد رکھتے تھے۔ اسی تناظر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰی تِلْکَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی﴾ [1] ’’کیا تمہارے لیے لڑکے ہیں اور اس کے لیے لڑکیاں؟ یہ تو اس وقت ناانصافی کی تقسیم ہے۔‘‘ یہی بات ایک دوسرے اسلوب میں سورۃ الصافات[2] اور تفصیل سے النحل[3] میں کہی گئی ہے۔ فرشتوں کی پرستش کے نتیجہ ہی میں قیامت کے روز ان سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا: ﴿وَ یَوْمَ یَحْشُرُہُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اَھٰٓؤُلٓائِِ اِیَّاکُمْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ قَالُوْا سُبْحٰنَکَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِہِمْ بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ اَکْثَرُہُمْ بِہِمْ مُّؤْمِنُوْنَ ﴾ [4] ’’جس دن وہ سب کو جمع کرے گا، پھر فرشتوں سے کہے گا کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ کہیں گے تو پاک ہے تو ہمارا دوست ہے نہ کہ وہ، بلکہ وہ جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے، ان کے اکثر انہی پر ایمان رکھنے والے تھے۔‘‘ کہ مشرکین واقعی تمہاری عبادت کرتے رہے ہیں؟ تو وہ عرض کریں گے بالکل نہیں آپ ہر قسم کے شریک وسہیم سے پاک ہیں یہ ہماری نہیں بلکہ شیاطین جنوں کی عبادت کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ہی انہیں یہ پٹی پڑھائی کہ وہ ہمارے ناموں پر بت تراشیں اور ان کی پرستش کریں۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: |