’’جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکال کا دشمن ہو تو بے شک اللہ کافروں کا دشمن ہے۔‘‘ گویا جو جبرئیل علیہ السلام کا دشمن وہ تنہا جبرئیل کا نہیں بلکہ اللہ کا اور تمام فرشتوں کا تمام رسولوں کا دشمن ہے۔ جس طرح ایک رسول کا انکار تمام رسولوں کے انکار کے مترادف ہے اسی طرح ایک فرشتے کا انکار تمام فرشتوں کا انکار ہے۔ احادیث میں بھی فرشتوں پر ایمان لانے کا ذکر ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب (یعنی جبریل علیہ السلام ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: ’اِلْاِیْمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَبِلِقَائِہِ وَرُسُلِہِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ‘[1] ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی ملاقات پر، اس کے رسولوں پر اور قبروں سے اٹھائے جانے پر ایمان لائے۔‘‘ صحیح مسلم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے تقریباً یہی روایت مروی ہے۔ جس میں سائل کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَاْلیَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ‘[2] ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر، اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے۔‘‘ ان دونوں احادیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ فرشتوں پر ایمان لانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ان کا نورانی وجود اور ذاتی تشخص ہے۔ اور یہ ایمان بالغیب کا تقاضا ہے۔ ملحدین ان کا انکار کرتے ہیں۔ بعض نے کواکب کو فرشتے قرار دیا اور بعض |