فرشتے مراد ہیں۔ [1] حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم نہیں دیکھتے، جو کچھ میں سنتا ہوں تم نہیں سنتے، آسمان بوجھ سے چر چر کرتا ہے اسے یوں کرنا چاہیے اس پر چار انگلیوں کی جگہ بھی ایسی نہیں جس پر فرشتہ سجدہ ریز نہ ہو۔ [2] طبرانی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے ایک قدم ایک بالشت، ایک ہاتھ جتنی جگہ بھی نہیں مگر وہاں کوئی فرشتہ سجدہ میں، کوئی رکوع میں، کوئی قیام میں کھڑا اللہ کی تسبیح وتہلیل میں مصروف ہے قیامت کے روز وہ کہیں گے ’سُبْحَانَکَ مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ‘ اللہ تو پاک ہے ہم سے تیری بندگی کا حق ادا نہیں ہوسکا البتہ ہم نے کسی کو تیرا شریک نہیں بنایا۔ [3] آسمانوں کے علاوہ زمین وآسمان کے مابین اپنی اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے والے فرشتے اس پر مستزاد ہیں انہی میں بالخصوص انسانوں کا نامۂ اعمال لکھنے والے، ان کی روح قبض کرنے والے بھی ہیں۔ کچھ فرشتے حاملینِ عرش ہیں اور ان کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک کا وجود اتنا بڑا ہے کہ کان سے کندھے تک کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت کے برابر ہے۔ [4] کچھ وہ ہیں جو عرش کے طواف میں مصروف ہیں، ان کو اَلْمُقَّرَبُوْنَ کہا گیا ہے۔ انہی میں جبریل،میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل ہے عزرائیل علیہ السلام ملک الموت ہے اس کا نام صحیح احادیث میں تو نہیں البتہ بعض آثار میں یہ نام آیا ہے۔ [5] فرشتوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے متعدد احادیث منقول ہیں۔ جن کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔ فرشتوں میں بھی درجہ ومرتبہ کے اعتبار سے درجہ بندی ہے سب سے افضل جبرائیل علیہ السلام جن کا ذکر قرآنِ مجید اور بہت سی احادیث میں آیا |