حضرت سعید رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس نوعیت کی روایت متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے حتی کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’ ہَذِہِ الْاَحَادِیْثُ کَالْمُتَوَاتِرَۃِ ‘ البدایۃ[1] ،تر مذی[2] اور مسند امام احمد[3] وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ آسمانوں کی طرح ساتوں زمینیں بھی اوپر نیچے ہیں اور ایک زمین کا دوسری زمین سے فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت کا ہے۔ مگر یہ روایت ضعیف ہے۔ ملاحظہ ہو ۔[4] اس کے علاوہ کسی صحیح روایت میں زمینوں کے مابین دوری کا ذکر نہیں۔ مفسرین کی آرا اس بارے میں نہایت مختلف ہیں۔ بعض نے سات اقلیم مراد لی ہیں، بعض نے سات پر سات تہیں مراد لی ہیں ،بعض سات علیحدہ علیحدہ بر اعظم مراد لیتے ہیں، بعض نے یہ تاویل کی کہ آسمان بلندی کو کہتے ہیں۔ بایں طور زمین کے اوپر آسمان یہ ان کے اوپر کے آسمان کے لیے بمنزلہ زمین ہے یوں سات آسمان اور اس کے نیچے سات زمینیں ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ہماری زمین کی طرح فضا میں دیگر زمینوں کا انکار ممکن نہیں۔ سائنس دانوں نے فلکی مشاہدات میں بعض سیاروں میں زمین سے ملتے جلتے آثار اور ان میں زندگی کے امکان کو تسلیم کیا ہے۔ مگر صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہم سات آسمانوں کی طرح سات زمینوں کو تسلیم کریں۔ ان کی آسمانوں کی طرح کوئی تفصیل قرآنِ پاک اور احادیثِ صحیحہ میں منقول نہیں اس لیے ہم حتمی بات کہنے کے نہ مجاز ہیں نہ اس تکلف کی کوئی ضرورت ہے۔ ہم اس کے تو مکلف ہیں: کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ تخلیق وتکوین پر ایمان لائیں مگر جن امور کی تفصیل اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں فرمائی اس میں رائے زنی سے اجتناب ہی سلامتی کی راہ ہے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا احاطہ نہیں کرسکتے تو اس کی تفصیلات کو کیوں کر جان سکتے ہیں۔ |