Maktaba Wahhabi

69 - 313
قرآنِ پاک کی اس آیت سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہیں۔ مگر یہ کہاں اور کیسی ہیں، ان پر کوئی آبادی ہے یا نہیں، اگر ہے تو کس نوعیت کی ہے۔ آسمانوں کی طرح ان کے مابین کوئی فاصلہ ہے یا نہیں، قرآنِ مجید ان امور سے ساکت ہے، البتہ احادیثِ مبارکہ میں واضح الفاظ سے منقول ہے کہ سات زمینیں ہیں۔ چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ اَخَذَ شَیْئًا مِنَ الْاَرْضِ بِغَیْرِ حَقِّہِ خُسِفَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَی سَبْعِ اَرْضِیْنِ[1] ’’جو زمین کے معمولی حصہ پر ناحق قبضہ کرتا ہے قیامت کے روز سات زمینوں میں دھنسایا جائے گا۔‘‘ اسی طرح حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: مَنْ ظَلَمَ مِنَ الْاَرْضِ شَیْئًا طُوَّقَہٗ مِنْ سَبْعِ اَرْضِیْنَ[2] ’’جس نے کسی پر ظلم کرکے معمولی سی زمین چھینی، اس کے گلے میں اسی قدر ساتوں زمینوں کا طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔‘‘ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے خلاف اَرویٰ نامی عورت نے استغاثہ کیا کہ سعید نے میری کچھ زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ انہوں نے اس کا انکار کیا اور فرمایا کہ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے میں یہ غلطی کیسے کرسکتا ہوں! انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ یہ عورت کہتی ہے کہ مجھ پر ظلم ہوا ہے یہ جھوٹی ہے اسے اندھا کردے اور اسی کے کنویں میں اسے گرا دے۔ اور مسلمانوں کو نور کی طرح دکھا دے کہ میں نے اس پر ظلم نہیں کیا۔ چند دن بعد وہ اندھی ہوگئی اپنی زمین میں پھر رہی تھی کہ کنویں میں گر کر مر گئی۔[3]
Flag Counter