ہوا ہے۔ کیوں کہ وہ بھی اوپر سے آتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَرْسَلْنَا السَّمَآئَ عَلَیْہِمْ مِّدْرَارًا ﴾ [1] ’’اور ہم نے ان پر موسلا دھار بارش برسائی۔‘‘ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اللہ سے بخشش طلب کرو۔ ﴿یُّرْسِلُ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا﴾[2] ’’وہ تم پر بہت برستی ہوئی بارش اتارے گا۔‘‘ یہ بارش اوپر سے آتی ہے اس لیے اسے ’’السماء‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور کبھی اسے آسمان سے نازل ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ اکثر قرآنِ پاک میں وارد ہوا ہے۔ ’’السمٰوٰت‘‘ جمع کا لفظ ہے اور قرآنِ مجید میں وضاحت ہے کہ وہ سات ہیں۔ چناں چہ ارشاد فرمایا: ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ق ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ فَسَوّٰہُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ط وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ﴾ [3] ’’وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا، پس انہیں درست کرکے سات آسمان بنا دیا اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والاہے۔‘‘ اس کے علاوہ سات آسمانوں کا ذکر فصلت:۱۲، المؤمنون:۸۶، الطلاق:۱۲، الملک:۳، نوح:۱۵ میں بھی ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آسمان منتہائے نظر کا نام نہیں۔ یہ ساتوں آسمان ایک دوسرے کے اوپر ہیں۔ ﴿اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ﴾[4] ’’کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کس طرح اللہ نے سات آسمانوں کو اوپر تلے پیدا فرمایا۔‘‘ |