جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یوں فرماتے: ’ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ، وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ‘ الخ[1] ’’میں نے اپنا چہرہ اس ہستی کی طرف پھیر لیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یک طرفہ ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی، میری موت اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔‘‘ الخ ایک اور روایت میں جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اسی صفت کے حوالے سے دعا کے الفاظ مروی ہیں، جنہیں صبح وشام اور سوتے وقت پڑھنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے: ’ اَللَّہُمَّ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ، فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ، رَبَّ کُلِّ شَیئٍ وَمَلِیْکَہٗ، أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہ اِلاَّ اَنْتَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ وَشِرْکِہِ ‘[2] ’’اے اللہ! غیب اور حاضر کو جاننے والے، آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے، ہر چیز کے پروردگار اور مالک، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنے نفس کے شر اور شیطان کے شر اور اس کے شرک سے۔‘‘ ’’ السمٰوٰت ‘‘سماء کی جمع ہے جس کا اطلاق ہر چیز کے بالائی حصہ پر ہوتا ہے۔ آسمان ، زمین اور اس پر بسنے والی مخلوق، بلکہ آسمان کے نیچے کی ہر چیز سے اوپر ہے اسی لیے اس کو آسمان کہتے ہیں۔ قرآنِ پاک ہی میں ’’السماء‘‘ کا اطلاق بارش پر بھی |