Maktaba Wahhabi

61 - 313
میرے معاون ومددگار ہیں۔ اس دعا کی جامعیت دیکھئے کہ اس میں توحید کا اقرار، ربّ تعالیٰ کی اطاعت کا اظہار، اپنی بے بسی اور مسکنت کا اعتراف، غیر اللہ سے لا تعلقی کا اظہار، اسلام پر موت کی اور صالحین کی رفاقت کی طلب، اس کی طلب اللہ سے کہ جو موت وحیات کا مالک ہے۔ اور قیامت کا بھی اس میں اعتراف۔ ملخصاً[1] اللہ تعالیٰ کی اسی صفت فاطر کا ذکر قرآنِ مجید میں الزمر: ۴۶، اور الشوریٰ: ۱۱، میں بھی آیا ہے۔ ادعیۂ مسنونہ میں بھی اس کا ذکر ہے۔ چناں چہ صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ امّ المومنین رضی اللہ عنہا سے حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کی نماز پڑھتے تو اس کی ابتدا میں کیا پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: کَانَ اِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ افْتَتَحَ صَلَاتَہٗ: اَللّٰہُمَّ رَبَّ جِبْرَائِیْلَ وَمِیْکَائِیْلَ وَاِسْرَافِیْلَ، فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ، أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ، اِہْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِکَ إِنَّکَ تَہْدِیْ مِنْ تَشَآئُ اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیٍم [2] ’’جب رات کو اٹھتے نماز کی ابتدا (ان کلمات سے) کرتے، اے اللہ! جبرائیل، میکائیل، اسرافیل کے ربّ، آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے، غائب اور حاضر کو جاننے والے، اپنے بندوں کے مابین آپ ہی اس چیز کے متعلق فیصلہ کریں گے جس میں وہ اختلاف کرتے تھے، حق کی جن باتوں میں اختلاف ہوگیا آپ اپنے حکم سے مجھے حق کی ہدایت عطا فرما دیں، آپ جسے چاہتے ہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔‘‘ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے کہ آپ
Flag Counter