Maktaba Wahhabi

54 - 313
سات دن گزرے تھے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر مل گئی۔ عثمان کہا کرتے تھے ’رحم اللہ ابا قلابۃ لقد صدق أنہ کان خیرۃ لی‘ ابوقلابہ پر اللہ کی رحمتیں ہوں انہوں نے سچ فرمایا تھا کہ پاؤں ٹوٹ جانے میں بھی میرے لیے بہتری ہے۔[1] اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ ﴿وَ لَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ﴾ [2] ’’اور یقینا ہم انہیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے تاکہ وہ پلٹ آئیں۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس سے دنیا کے مصائب وآلام اور بیماری مراد ہے۔ ان سے اگر عبرت ونصیحت حاصل ہوجائے اور توبہ کی توفیق مل جائے تو یہ مصیبت وبیماری بھی نعمت اور باعثِ رحمت بن جاتی ہے۔ امام ابوقلابہ عبداللہ بن زید بصرہ رحمہ اللہ کے کبار فقہاء ومحدثین اور اہل اللہ میں شمار ہوتے ہیں۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کتاب الثقات میں ان کے آخری دور کا عجیب واقعہ ذکر کیا ہے۔ انہیں عہدۂ قضا پیش کیا گیا تو وہ بصرہ چھوڑ کر مصر کے قریب جا بسے تھے۔ عبداللہ بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ساحلِ سمندر کے پاس ایک رباط کے پاس سے گزرا تو ایک خیمہ میں ایک شخص کو دیکھا بیماری سے اس کے ہاتھ اور پاؤں ضائع ہوگئے تھے۔ سماعت وبینائی اور اس کے دیگر اعضاء کمزور ہوگئے تھے۔ میں نے سنا وہ کہہ رہا تھا: اَللَّہُمَّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَحْمَدَکَ حَمْداً أُکَافِیئَ بِہِ شُکْرَ نِعْمَتِکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ بِہَا عَلیَّ وَفَضَّلْتَنِیْ؟ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَنْ خَلَقْتَ تَفْضِیْلًا
Flag Counter