امام محمد بن واسع رحمہ اللہ کا شمار بصرہ کے کبار اہلِ علم میں ہوتا ہے۔ ان کے علم وفضل اور زہد وتقویٰ کا اسی سے اندازہ لگائیے کہ سلیمان تیمی رحمہ اللہ جیسے محدث اور شب زندہ دار امام فرماتے تھے: میں اللہ تعالیٰ سے ملوں تو میرا نامۂ اعمال محمد بن واسع رحمہ اللہ جیسا ہونا چاہیے۔[1] عبدالعزیز بن ابی داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام محمد بن واسع رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بڑا خوف ناک زخم ہوا تو میں انہیں ملنے کے لیے گیا تو انہوں نے میری پریشانی دیکھ کر فرمایا: کیا آپ کو علم ہے کہ ہاتھ پر زخم کی وجہ سے اللہ کا مجھ پر کس قدر احسان ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ زخم میری ٹھوڑی، میری زبان یا میری شرمگاہ پر نہیں۔ اس لیے اس زخم کی کوئی ایسی فکر نہیں۔ [2] لہٰذا کسی بیماری یا پریشانی پر فکر مندی گو ایک طبعی امر ہے مگر اس حالت میں بھی یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بڑی یا اس سے بھی خوفناک مصیبت میں مبتلا نہیں کیا۔ یوں یہ تکلیف بڑی تکلیف کے مقابلے میں نعمت ہے۔ بلکہ اس تکلیف میں اگر خوش نصیب کو لذتِ مناجات کی نعمت حاصل ہوجائے یا توبہ واستغفار کی توفیق مل جائے تو اس بیماری کے نعمت ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟ بسا اوقات کوئی تکلیف کسی بڑی مصیبت سے بچاؤ کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔ عثمان بن ہیثم بصری رحمہ اللہ عبیداللہ بن زیاد کے عہدِ گورنری میں سپہ سالار تھے۔ ایک روز اچانک مکان کی چھت سے گرے تو دونوں پاؤں ٹوٹ گئے۔ امام عبداللہ بن زید ابوقلابہ رحمہ اللہ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو تسلی دیتے ہوئے فرمایا امید ہے اس میں بھی اللہ کے ہاں کوئی بہتری ہوگی۔ عثمان کہنے لگے کیا بہتری؟ پاؤں تو دونوں ٹوٹ گئے ہیں۔ امام ابوقلابہ رحمہ اللہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے بہت سی حقیقتوں کو تم سے چھپا رکھا ہے۔ ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ عبید اللہ بن زیاد کا پیغام آیا کہ حضرت سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے خلاف لڑائی کے لیے تیار ہوجاؤ۔ عثمان نے اپنی معذوری ظاہر کردی اور قاصد کو صورتِ حال سے آگاہی کا کہہ دیا۔ عثمان کہتے ہیں |