تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا ﴾[1] ’’کہہ دے اگر سمندر میرے ربّ کی باتوں کے لیے سیاہی بن جائے تو یقینا سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے ربّ کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے برابر اور سیاہی لے آئیں۔‘‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کلمات ختم کیوں کر ہوں، نہ ابتدا نہ ان کی کوئی انتہا، جب کہ مخلوق کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی، لہٰذا مخلوق تو ختم ہوجائے گی مگر حی اور قیوم کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔ نیز فرمایا: ﴿وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ م بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ﴾[2] ’’اور اگر واقعی ایسا ہو کہ زمین میں جو بھی درخت ہیں قلمیں ہوں اور سمندر کی سیاہی ہو، جس کے بعد سات سمندر اور ہوں تو بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گے، یقینا اللہ سب پر غالب کمال حکمت والا ہے۔‘‘ یوں ساری مخلوق مل کر نہ اللہ کے کلمات کا احاطہ کرسکتی ہے نہ عرشِ الٰہی کے وزن کا اندازہ ہوسکتا ہے، نہ اللہ کی رضا کی برابری کا اور نہ ہی اللہ کی مخلوق کا شمار وقطار ہوسکتا ہے۔ اللہ کے کلمات تو لا محدود اور لا متناہی ہیں، لا محدود کمالات کا مالک لامحدود کلمات کے ذریعہ اپنے کمالات کا اظہار کرتا رہتا ہے تو کسی محدود کو کیا یارا ہے کہ ان کا احاطہ کرپائے…! ۵: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ ایک صاحب نماز کے لیے صف میں کھڑے ہوئے اس کی سانس تیز تیز تھی اس نے ’’اللہ اکبر‘‘ یعنی تکبیر تحریمہ کے بعد کہا: ’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْدًا کَثِیْراً طَیِّباً مُبَارَکاً فِیْہِ ‘[3] |