Maktaba Wahhabi

40 - 313
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ الحمد للہ کا جس نعمت سے افضل ہونا، اس حدیث میں مذکور ہے اس سے مراد دنیوی نعمت ہے۔ جیسے صحت، رزق اور دفعِ ضرر وغیرہ اور الحمد للہ کہنے کی توفیق ملنادینی نعمتیں ہے۔ یہ دونوں نعمت ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کو اپنی نعمتوں پر حمد وشکر کی توفیق عطا فرمانا، دنیوی نعمتوں سے افضل ہے۔ کیوں کہ دنیوی نعمتوں کے ساتھ اگر اللہ کا شکر اور اس کی حمد وثنا نہ ہو تو یہ نعمت بڑی آزمائش بن جاتی ہے۔ چناں چہ حضرت ابوحازم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کُلُّ نِعْمَۃٍ لَا تُقَرِّبُ مِنَ اللّٰہِ فَہِیَ بَلِیَّۃٌ۔‘ ’’جو نعمت قربِ الٰہی کا باعث نہیں وہ بڑی مصیبت ہے۔‘‘ اس لیے جب دنیوی نعمتوں پر حمد وشکر کی توفیق حاصل ہوتی ہے تو یہ نعمتِ شکر اس دنیوی نعمت سے افضل اور بہتر ہے اور اللہ کے ہاں محبوب ہے۔ کیونکہ اللہ اپنے شکر گزار اور حمد کار بندے سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ کے ہاں یہ بات بڑی پسندیدہ ہے کہ اس کا بندہ کھانا کھائے، پانی پیئے اور اس کا شکر کرے اور اللہ کی تعریف کرے۔ جب انسان کی یہ حالت ہے کہ جب وہ جود وسخا کا مظاہرہ کرے تو لوگ اس کی تعریف کریں اور وہ اس تعریف کو اپنے مال ومتاع سے بہتر سمجھتا اور اس پر خوش ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ توسب سے بڑے سخی اور سب سے بڑے جواد ہیں، اس کی جود وسخا پر جب اس کا بندہ اس کی حمد کرتا اور شکر بجا لاتا ہے تو وہ بھی اسے پسند کرتا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے سے حمد وشکر کا تقاضا کرتے ہیں اور اس حمد وشکر کے نتیجہ میں مزید نوازشوں سے سرفراز کرنے کا حتمی وعدہ فرماتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کی حمد کا محتاج نہیں کوئی انسان اس کی حمد نہ بھی کرے وہ پھر بھی محمود ہے۔ لیکن وہ اپنے بندے کی طرف سے حمد وشکر کو پسند کرتا ہے۔ یہ اس لیے بھی کہ اس میں خود بندے کی فلاح وفوز کا راز ہے۔ اور یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ وہ اپنے
Flag Counter