’ اَللَّہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ، مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الْاَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیئٍ بَعْدُ، اَہْلَ الثَّنَائِ وَالْمَجْدِ، اَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ۔ ‘[1] ’’اے اللہ! ہمارے ربّ! تیرے لیے ہی سب تعریفیں ہیں آسمانوں کے بھرنے کے برابر، زمین کے بھرنے کے برابر، اور اس کے جس کے بھرنے کے بارے میں آپ چاہتے ہیں۔ تعریف اور عظمت کے لائق آپ ہی ہیں۔ سب سے زیادہ حق جو بندے نے کہا اور ہم سب تیرے بندے ہیں۔ اے اللہ! جو کچھ آپ دینا چاہیں اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ اور جس کو آپ روک دیں اسے کوئی دے نہیں سکتا اور کسی دولت مند کو تیرے عذاب سے دولت مندی فائدہ نہیں دیتی۔‘‘ اس دعا میں ’’ اَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ ‘‘ میں ’’عبد‘‘ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔ اور یہ جملہ خبر ہے جس کی مبتدا محذوف ہے۔ یعنی اصل کلام یوں ہے: ’’الحمد احق ما قال العبد‘‘ اور سب سے زیادہ حق بات جو بندہ کہتا ہ وہ حمد وثناہی ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (سورۃ فاتحہ)کو نماز میں لازم قرار دیا، اور اسی بنا پر ہر خطبہ اور ہر ذی شان کام کا آغاز آپ الحمد سے کرتے تھے۔ [2] حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ مَا اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلٰی عَبْدٍ بِنِعْمَۃٍ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ، اِلَّا کَانَ مَا أَعْطَی اَفْضَلَ مِمَّا أَخَذَ۔ ‘[3] ’’اللہ تعالیٰ نے جس بندے کو کوئی نعمت عطا فرمائی تو اس نے اس پر الحمد للہ کہا۔ مگر جو نعمت اس نے حاصل کی اس سے یہ کلمۂ حمد جو اسے عطا کیا گیا زیادہ فضیلت والا ہے۔‘‘ |