بندے کی حمد وثنا کو اپنے بندے کی طرف ہی منسوب کرتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی، یہ بالکل اسی طرح جیسے اللہ تعالیٰ کسی کو مال ودولت سے نوازتا ہے۔ پھر اپنے بندوں سے قرض کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور اس قرض دینے یعنی اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے پر اپنے بندے کی تعریف کرتا ہے حالاں کہ سب مال ومتاع کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔[1] اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ’’الحمد للہ‘‘ کہنے کی نعمت، دنیا کی تمام نعمتوں سے افضل ہے۔ بلکہ حضرت بکر بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’ مَا قَالَ عَبْدٌ قَطُّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اِلَّا وَجَبَتْ عَلَیْہِ نِعْمَۃٌ بِقَوْلِہِ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، فَمَا جَزَائُ تِلْکَ النِّعْمَۃِ؟ جَزَائُ ہَا اَنْ یَّقُوْلَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، فَجَائَ تْ أَخْرٰی، وَلَا تَنْفَدُ نِعَمُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔‘ [2] ’’انسان جب بھی الحمد للہ کہتا ہے اس پر الحمد للہ کہنے کی وجہ سے ایک اور نعمت لازم ہوگئی۔ اس نعمت کا کیا بدلہ ہے؟ اس کا بدلہ ہے کہ وہ پھر الحمد للہ کہے، یوں ایک اور نعمت حاصل ہوئی۔ اللہ کی نعمتیں ختم ہونے والی نہیں ہیں۔‘‘ یعنی ادائے شکر پر ایک اور شکر لازم آتا ہے۔ کیوں کہ شکر کی توفیق بھی تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔ پھر اس توفیقِ شکر پر پھر شکر۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الحمد للہ کہنا نعمت ہے اور جس نعمت پر الحمد للہ کہا جائے یہ کہنا بھی اللہ کی نعمت ہے اور بعض نعمتیں بعض سے سبقت لے جانے والی ہوتی ہیں۔ مثلاً نعمتِ شکر، نعمتِ مال، نعمتِ جاہ واولاد وغیرہ سے بہتر ہے۔[3] |