Maktaba Wahhabi

305 - 313
بدل ہے ’’نفورا‘‘ سے۔ (البحر) یعنی یہ تو رسول کی دعوت کو قبول کرکے ہدایت میں دوسری امتوں سے آگے بڑھنے کے مدعی تھے مگر جب رسول آیا تو اس سے بگڑ گئے اور تکبر سے ان کا انکار کرنے لگے اور اس کے خلاف بری سازشیں اور تدبیریں کرنے لگے جیسا کہ پہلے آیت نمبر (۱۰) کے تحت ان کی سازشوں کا ذکر ہم کر آئے ہیں۔ ’’مکر‘‘ کا اطلاق اچھے معنوں میں بھی ہوتا ہے، اس لیے اس کے ساتھ ’’السيء‘‘ کا لفظ ان کی بری سازشوں کی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے کہا ہے: ﴿اِسْتِکْبَارًا فِي الْاَرْضِ وَمَکْرَ السَّیِّیِٔ﴾ حال ہے۔ (البحر) یعنی یہ ’’نفور‘‘ تکبر اور سازشوں کے ساتھ ہے۔ جس سے ان کے ’’نفور‘‘ کی شدت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ علیحدہ ہو کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ انھوں نے بڑے تکبر کا مظاہرہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مکروہ جال بچھائے حتی کہ ان کے قتل کے درپے ہوگئے۔ ﴿وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ ﴾ حالانکہ حقیقت یہ ہے حق کے خلاف جو سازش کرتا ہے اس کا خمیازہ خود اسی کو بھگتنا پڑتا ہے، حق کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا۔ جو کسی کے لیے کنواں کھودتا اور سازشوں کا جال بُنتا ہے وہ خود اس میں پھنس جاتا ہے۔چاہ کن را چاہ درپیش جلیل القدر تابعی محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں: یہ تین کام کرنے والا نجات نہیں پاتا، ان کا وبال خود اسی پر پڑتا ہے: مکر، بغی (بغاوت)، نکث (عہد توڑنا)۔ مکر وفریب کے بارے میں تو اسی آیت میں وضاحت ہے کہ کسی کے لیے برا مکر کرنے والا خود اس میں پھنستا ہے۔ اسی طرح ’’بغی‘‘ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُکُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ ﴾ [1] ’’اے لوگو! تمھاری سرکشی تمھاری جانوں ہی پر ہے۔‘‘ اسی طرح ’’نکث‘‘ کے بارے میں فرمایا:
Flag Counter