﴿اِسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَمَکْرَ السَّیِّیِٔ وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَہْلِہٖ فَہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّۃَ الْاَوَّلِیْنَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلااًا وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلااًا ﴾ [الفاطر:۴۳[ ’’زمین میں تکبر کی وجہ سے اور بری تدبیر کی وجہ سے اور بری تدبیر اپنے کرنے والے کے سوا کسی کو نہیں گھیرتی۔ اب یہ پہلے لوگوں سے ہونے والے طریقے کے سوا کس چیز کا انتظار کررہے ہیں؟ پس تُو نہ کبھی اللہ کے طریقے کو بدل دینے کی کوئی صورت پائے گا اور نہ کبھی اللہ کے طریقے کو پھیر دینے کی کوئی صورت پائے گا۔‘‘ اس آیت کی ابتدا میں مشرکین کے نفور واِعراض کا اصل سبب ذکر ہوا ہے کہ ان کی آرزوؤں کے مطابق اللہ نے رسول بھیجا۔ دلائل وبراہین اور واضح معجزات کے باوجود ان کی دینِ حق سے نفرت کا اصل سبب ان کا ’’استکبار‘‘ ہے۔ وہ یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے کہ ہماری سیادت وقیادت ختم ہوجائے اور سب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قائد تسلیم کرلیں۔ خاندانی رقابت اس پر مستزاد تھی۔ جیسا پہلے ہم آیت نمبر(۴) کے تحت ذکر کر آئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یتیم سمجھ کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے بلکہ وہ برملا کہتے تھے: ﴿وَ قَالُوْا لَوْ لاَ نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ﴾ [1] ’’اور انھوں نے کہا: یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟‘‘ |