Maktaba Wahhabi

300 - 313
ان سے زیادہ ہدایت والے ہوتے۔ پس بے شک تمھارے پاس تمھارے ربّ کی طرف سے ایک روشن دلیل اور ہدایت اور رحمت آچکی۔‘‘ گویا اتمامِ حجت ہم نے کر دیا ہے۔ یہاں بھی یہی بات فرمائی گئی ہے کہ ان کی چاہتوں کے مطابق ہم نے رسول بھیجا مگر ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ آئی۔ ہدایت کی بجائے الٹا نفرت وتمرد میں ہی اضافہ ہوا۔ امام رازی رحمہ اللہ نے یہاں عام مفسرین سے اختلاف کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس آیت میں بھی مشرکینِ مکہ کی مزید تکذیب کا ہی ذکر ہے کیونکہ جب کوئی کسی کا قرض ادا کرنے سے انکار کرتا ہے تو اس نے کبھی یہ کہا ہے کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے علم ہوتا کہ میں اس کا مقروض ہوں تو میں ضرور اس کا قرض ادا کر دیتا بلکہ احساناً قرض کی رقم سے زیادہ رقم ادا کرتا۔ یہ بات دراصل وہ اس تناظر میں کہتا ہے کہ مجھ سے قرض کا مطالبہ ہی باطل ہے۔ بالکل اسی طرح اہلِ مکہ رسول کے منکر تھے اور کہتے تھے کہ اگر رسول آئے تو ہم ہدایت میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے مگر جب رسول آئے تو ان کی نفرت میں اضافہ ہی ہوا۔ وہ پہلے اللہ کے کافر تھے، پھر رسول اللہ کے بھی کافر ہوگئے: کَانُوْا کَافِرِیْنَ بِاللّٰہِ وَبَعْدَہَا صَارُوْا کَافِرِیْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار بایں طور کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسول نہیں ہوسکتے۔ یہ رسالت کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر واقعی یہ رسول ہوتے تو ہم تسلیم کرلیتے اور ہدایت میں کسی سے پیچھے نہ رہتے۔ مگر یہ توجیہ وتاویل محلِ نظر ہے۔ اوّلاً: کفارِ مکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے منکر وکافر نہیں تھے بلکہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک کے مرتکب تھے اور یہی ان کا کفر تھا۔ ثانیاً: امام رازی رحمہ اللہ نے مثال تو قرض کی ادائیگی سے شدید انکار کی دی ہے کہ مطالبۂ قرض ہی باطل ہے۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی رسول کی رسالت کے ہی منکر تھے جیسا کہ خود انھوں نے فرمایا بھی ہے: ’کَانُوْا مُنْکِرِیْنَ لِلرِّسَالَۃِ ‘ ’’وہ رسالت کے منکر تھے۔‘‘
Flag Counter