﴿وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَئِنْ جَآئَ ہُمْ نَذِیْرٌ لَّیَکُوْنُنَّ اَہْدٰی مِنْ اِحْدَی الْاُمَمِ فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَہُمْ اِلَّانُفُوْرًا﴾ [فاطر:۴۲[ ’’اور انھوں نے اپنی پختہ قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی پختہ قسم کھائی کہ واقعی اگر کوئی ڈرانے والا ان کے پاس آیا تو ضرور بالضرور وہ امتوں میں سے کسی بھی امت سے زیادہ ہدایت پانے والے ہوں گے، پھر جب ان کے پاس ایک ڈرانے والا آیا تو اس نے ان کو دور بھاگنے کے سوا کچھ زیادہ نہیں کیا۔‘‘ پہلی آیات میں شرک کا ابطال اور توحیدِ باری تعالیٰ کا اثبات تھا کہ اللہ کے سوا جنھیں تم پکارتے ہو نہ وہ کسی چیز کے خالق ہیں، نہ کسی چیز کے مالک اور نہ ہی ان کے شریک ہونے پر کوئی نقلی دلیل ہے۔ شرک کا یہ سارا کاروبار دھوکے اور فریب پر مبنی ہے۔ اپنی اپنی دکانیں چمکانے اور محض لوگوں کو گرویدہ بنانے کے پراپیگنڈے ہیں کہ فلاں صاحب بڑی ہستی ہیں، بڑے اختیار والے ہیں۔ وہاں جو جاتا ہے اپنی مراد پاتا ہے، کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ یہ سب دھوکہ بازی اور فریب کاری ہے۔ اختیارات کا وہی مالک ہے جس کی حکم رانی آسمانوں اور زمین پر ہے۔ اس آیت میں مشرکینِ مکہ کی مزید حماقت کی تردید ہے کہ بات بات پر لات وعزیٰ کی قسمیں کھانے والے، اس بارے میں اللہ کی پختہ قسمیں کھاتے تھے کہ اگر ہمارے پاس رسول آیا تو ہم سب امتوں سے بڑھ کر ہدایت پانے والے ہوں گے۔ قریشِ مکہ یہودیوں سے باخبر تھے کہ وہ اہلِ کتاب ہیں، رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں مگر ان کی نافرمانی کرتے ہیں۔ اہلِ مکہ ’’امی‘‘ یعنی کتاب وشریعت سے بے خبر تھے، اسی بنا پر یہود اُن کو حقیر سمجھتے تھے بلکہ بعض تو اپنے لیے ان کا مال ہڑپنا بھی جائز |