Maktaba Wahhabi

297 - 313
کر عقل مراد لیتے ہیں، چنانچہ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿اَمْ تَاْمُرُہُمْ اَحْلَامُہُمْ بِہٰذَا ﴾ [1] ’’یا انھیں ان کی عقلیں اس بات کا حکم دیتی ہیں۔‘‘ نیز دیکھیے ’’مفردات۔‘‘ گویا اللہ تبارک وتعالیٰ نہایت بردبار، نہایت متین ہے۔ انتقام کی پوری قدرت کے باوجود قصور وار سے کوئی تعرض نہیں کرتا۔ امام رازی رحمہ اللہ نے بڑی لطیف بات فرمائی ہے کہ عموماً کہا جاتا ہے کہ ’’حلیم‘‘ اسے کہتے ہیں جو انتقام میں جلدی نہیں کرتا مگر جو انتقام میں جلدی نہیں کرتا اور ارادہ رکھتا ہے کہ موقع آنے پر انتقام لوں گا اسے تو ’’حاقد‘‘ (کینہ پرور) کہتے ہیں۔ اور اگر وہ یہ ارادہ کرتا ہے کہ میں بالکل انتقام نہیں لوں گا تو اسے عفو وغفران کہتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ حلیم دراصل اسے کہتے ہیں جو بالکل انتقام کا ارادہ نہ رکھتا ہو اور نہ اس بارے میں کوئی اظہار کرتا ہو۔ اور اگر انتقام نہ لینے کا اظہار کرے تو اسے ’’عفو‘‘ کہتے ہیں۔ اور یہی حلیم وعفو میں فرق ہے۔[2] گویا حلیم وہ ہے جو قدرت کے باوجود قصور وار سے کوئی تعرض نہ کرے، اور انتہائی اشتعال انگیز بات کو برداشت کرے۔ مشرکین کے شرک کا نتیجہ تو وہی ہونا چاہیے جو فرمایا ہے: ﴿تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا ﴾ [3] ’’آسمان قریب ہے کہ اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے کر گر پڑیں کہ انھوں نے رحمان کے لیے کسی اولاد کا دعویٰ کیا۔‘‘ مگر ایسا اس لیے نہیں ہورہا کہ اللہ بڑا ہی بردبار اور نہایت برداشت کرنے والا ہے۔ اور مہلت دیتا ہے کہ پلٹ آئیں اور اپنی اصلاح کرلیں۔ اللہ بے حد معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔
Flag Counter