’’اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔‘‘ یہ سارا نظام اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور اسے اپنے اپنے مدار میں تھام رکھا ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ انھیں اپنے مدار میں نہ رکھے تو چشمِ زدن میں یہ سارا نظام تباہ وبرباد ہوجائے، کسی میں کوئی طاقت نہیں کہ اسے تھام رسکے۔ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ذکر کی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں یہ خیال آیا کہ کیا اللہ سبحانہ وتعالیٰ سوتے ہیں یا نہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک فرشتہ بھیجا۔ اس نے تین دن تک موسیٰ علیہ السلام کو سونے نہ دیا پھر انھیں دو شیشے کی بوتلیں دیں کہ انھیں تھامے رکھو۔ ادھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نیند آنے لگی اور بوتلیں باہم ٹکرانے ہی لگی تھیں کہ موسیٰ علیہ السلام ہوشیار ہوگئے۔ بالآخر انھیں نیند آگئی تو بوتلیں ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گئیں۔ یوں مثال دے کر موسیٰ علیہ السلام کو سمجھایا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ سو جائیں تو آسمانوں اور زمین کو کون سنبھالے گا۔ یہ روایت تفسیر ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابویعلی، ابن مردویہ، الأفراد للدار قطني اور الأسماء والصفات للبیہقي وغیرہ میں منقول ہے مگر یہ مرفوعاً قطعا صحیح نہیں، نہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ صحیح ہے۔ جس کی تفصیل [1] میں موجود ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہے اور بنی اسرائیل نے اس کا سوال حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیا تھا۔ یوں نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں خیال آیا تھا۔ ﴿اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا﴾ وہ نہایت بردبار، بے حد بخشنے والا ہے۔ ’’حلیم‘‘ حِلْمٌ سے ہے جس کے معنی ہیں ایسا ضبط وتحمل کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑک نہ اٹھے۔ بعض نے اس کے معنی ’’عقل‘‘ کیے ہیں اور کہا ہے کہ دراصل ’’حلم‘‘ کے معنی متانت اور سنجیدگی کے ہیں اور متانت بھی عقل سے آتی ہے۔ اس لیے حلم کا لفظ بول |