﴿اِنَّ اللّٰہَ یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا وَ لَئِنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَکَہُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْ بَعْدِہٖ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا ﴾ [فاطر:۴۱[ ’’بے شک اللہ ہی آسمانوں کو اور زمین کو تھامے رکھتا ہے اس سے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹیں اور یقینا اگر وہ ہٹ جائیں تو اس کے بعد کوئی ان دونوں کو نہیں تھامے گا، بے شک وہ ہمیشہ سے نہایت بردبار، بے حد بخشنے والا ہے۔‘‘ پہلی آیت میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ آسمان اور زمین بلکہ پوری مخلوق میں سے کسی چیز کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ کسی نے نہیں بنایا۔ اور جن کو مشرکین نے اللہ کے سوا معبود بنایا ہے اور انھیں اللہ کی بادشاہت میں شریک سمجھ کر اپنی حاجات میں پکارتے ہیں، ان کیپاس اس فکر کی کوئی عقلی اور نقلی دلیل نہیں۔ اس آیت میں بھی اسی تنا ظر میں اللہ کی قدرتِ کاملہ اور معبودانِ باطلہ کی بے بسی کا بیان ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ ﴾ جس طرح اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو بنایا۔ اسی طرح اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو تھام رکھا ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں۔ اپنے اپنے مقام اور کرہ پر برقرار رہیں۔ اگر بالفرض ان میں سے کوئی ایک اپنے محور سے ہٹ جائے تو پوری دنیا نیست ونابود ہوجائے۔ یہ اپنے اپنے محل ومدار پر قائم ہیں تو صرف اللہ کے حکم سے قائم ہیں۔ اس میں تمھارے کسی شریک کا، خو اہ وہ فرشتہ ہو یا نبی، ولی ہو یا دیوتا، کوئی دخل نہیں۔ آسمان وزمین اور اس کے مابین تمام کُرات کو سنبھالنا تو کجا، یہ تو اپنے وجود کو سنبھالنے اور برقرار رکھنے پر بھی قادر نہیں۔ انھوں نے کسی کو کیا سنبھالا دینا ہے! جس طرح اللہ کے علاوہ اس نظام کا اور کوئی خالق نہیں اسی طرح اس کے علاوہ اس کا انتظام وانصرام کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ اس کے ان تکوینی امور |