کم‘ میں اشارہ ہے کہ یہ تمھارے بنائے ہوئے شریک ہیں، اللہ نے تو انھیں اپنا شریک نہیں بنایا۔ بتلاؤ تمھارے ان شرکاء نے زمین اور آسمان کا کوئی حصہ بنایا ہے یا اس کے کسی حصہ کے مالک ہیں یا ان میں تصرف کی قدرت رکھتے ہیں؟ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ بتاؤ اگر تمھارے معبود عاجز ہیں تو ان کی عبادت کیوں کرتے ہو اور اگر سمجھتے ہو کہ ان میں قوت وقدرت ہے تو بتلاؤ زمین وآسمان میں سے کون سا حصہ انھوں نے بنایا ہے؟ جیسا کہ بعض کا خیال تھا آسمانوں میں معبود اللہ ہے اور زمین پر یہ ہمارے شرکاء ہیں۔ اور ان میں وہ بھی تھے جو کہتے تھے کہ اللہ نے آسمانوں کو فرشتوں کے تعاون سے بنایا ہے اور یہ بت انھی کی شکلیں اور صورتیں ہیں۔ بعض ایسے تھے جو کہتے تھے کہ زمین کے معاملات ستاروں سے وابستہ ہیں اور یہ بت ان ستاروں کی تشبیہیں ہیں۔ بعض یہ سمجھتے تھے کہ یہ فرشتے اللہ کے ہاں ہماری سفارش پر قادر ہیں، ان کی بدولت اللہ کا قرب حاصل ہوجائے گا۔ بتلاؤ انھوں نے زمین وآسمان میں سے کچھ بنایا ہے۔ جب ان کا اس میں کوئی حصہ نہیں تو عقل کا تقاضا ہے کہ وہ معبود بھی نہیں ہیں۔ ﴿اَمْ اٰتَیْنٰہُمْ کِتٰـبًا ﴾ ’’یا ہم نے انھیں کوئی کتاب دی ہے۔‘‘ ’’ھم‘‘ کی ضمیر کا مرجع لفظ ’’شرکاء‘‘ بھی ہوسکتا ہے یعنی کیا تمھارے شرکاء کو ہم نے کوئی کتاب دی ہے جس میں لکھا ہو تم میرے شریک ہو اور میں تمھاری سفارش ردّ نہیں کروں گا؟ یا ’’ھم‘‘ کا مرجع مشرکین ہیں یعنی ان مشرکین کے پاس کوئی نقلی دلیل ہے کہ ہم نے انھیں ان کی پرستش کی اجازت دی ہے؟ اگر ہم نے انھیں سجدہ کرنے کی اجازت دی ہوتی تو کہا جاسکتا تھا کہ یہ بھی آدم کو سجدے اور کعبے کی طرف سجدے کے حکم کی مانند ہے مگر ہم نے تو ایسا حکم نہیں دیا۔ گویا عقلاً اور نقلاً کسی اعتبار سے بھی ان کا معبود ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ قرآنِ پاک میں یہی اسلوبِ بیان اور مقامات پر بھی ہے، چنانچہ ایک جگہ فرمایا: کہ یہ آسمان،یہ زمین،یہ پہاڑ، زمین میں ہر طرح کے جانور، آسمان سے بارش، پھر اس سے زمین کی ساری پیداوار، یہ سب کچھ تو اللہ کی مخلوق ہے: |