﴿قُلْ اَرَئَ یْتُمْ شُرَکَآئَ کُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ اَمْ اٰتَیْنٰہُمْ کِتٰبًا فَہُمْ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْہُ بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا ﴾ [فاطر:۴۰[ ’’کہہ دے: کیا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو؟ مجھے دکھاؤ زمین میں سے انھوں نے کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں سے ان کا کوئی حصہ ہے یا ہم نے انھیں کوئی کتاب دی ہے کہ وہ اس کی کسی دلیل پر قائم ہیں؟ بلکہ ظالم لوگ، ان کے بعض بعض کو دھوکے کے سوا کچھ وعدہ نہیں دیتے۔‘‘ اس آیتِ مبارکہ میں معبودانِ باطلہ کی بے حقیقتی کا بیان ہے کہ اللہ کے سوا جن کی عبادت اور پوجا پاٹ میں تم نے انھیں اللہ کا شریک بنا رکھا ہے اور اپنی حاجات میں انھیں پکارتے ہو، کیا تم نے دیکھا ہے۔ ﴿اَرَئَ یْتُمْ﴾ ’’ھمزہ‘‘ استفہام کے لیے ہے اور عموماً اسے ’اَخْبِرُوْنِيْ‘ کے معنی میں لیا گیا ہے یعنی مجھے اپنے شرکاء کے بارے میں بتلاؤ۔ کیوں کہ استفہام کا تقاضا یہی ہے کہ جب یہ کہا جائے ’’أرأیت ما ذا فعل زید؟‘‘ تو سننے والا یہی کہتا ہے کہ وہ فلاں کام میں مشغول ہے۔ اگر استفہام کو خبر متضمن نہ ہو تو جواب یوں دیا جاتا ہے: میں نے دیکھا ہے یا میں نے نہیں دیکھا۔ اور ’’أروني‘‘ کو بعض نے ’’أرأیتم‘‘ سے بدل بنایا ہے مگر ابوحیان نے کہا ہے کہ یہ جملہ تاکیدِ کلام کے لیے ہے۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کیا تم نے دیکھا ہے؟ مجھے بھی دکھاؤ۔ یہاں ’شرکاء |