Maktaba Wahhabi

288 - 313
الشَّھَوٰتِ فَسَوْفاَا یَلْقَوْنَ غَــــــیًّا ﴾[1] ’’پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ان کی جگہ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کردیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے تو وہ عنقریب گمراہی کو ملیں گے۔‘‘ خلیفہ یا الخلافت کے معنی دوسرے کا نائب ہونے کے ہیں، خواہ یہ نیابت کسی کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کی وجہ سے یا محض نائب کے شرف وفضل کی غرض سے ہو۔ یہاں ’’خلائف‘‘ سے مراد پہلی نسل کے بعد ان کی جانشین نسل مراد ہے یا پہلی قومِ یہود کے بعد بنو اسماعیل کی یا امتِ محمدیہ کی جانشینی بھی ہوسکتی ہے۔ یہود کو جس شرف وفضل سے نوازا گیا تھا وہ اپنی مسلسل بدعہدیوں کے نتیجے میں اس منصب کے اہل نہ رہے تو ان کی جگہ بنو اسماعیل کو ان کا جانشین بنایا۔ علامہ ابوحیان نے فرمایا ہے کہ ظاہراً یہ خطاب عام ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا مصداق اہلِ مکہ ہیں۔[2] خلافت اور ایک دوسرے کی جانشینی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دنیا دار القرار نہیں دار الفنا ہے۔ یہاں کی لذتیں بھی عارضی اور یہاں کے آلام ومصائب بھی عارضی ہیں بلکہ یہاں کی ہر چیز عارضی ہے۔ جو بھی آیا ہے اس نے یہاں سے جانا ہے۔ آنے والوں کو چلے جانے والوں سے سبق سیکھنا چاہیے کہ انھوں نے اپنے پیچھے نیک نامی کمائی ہے یا بدنامی۔ انھوں نے توحید اور اتباع کی راہ اختیار کرکے اللہ کی رضا حاصل کی ہے یا شرک وکفر اور ضلالت کا طریقہ اختیار کرکے اللہ کی ناراضی مول لی ہے۔ اس لیے آنے والوں اور دوسروں کا جانشین بننے والوں کو خبر دار رہنا چاہیے کہ اگر تم نے بھی نافرمانی کی اور وہی روش اختیار کی جو تم سے پہلوں نے اختیار کی تھی تو تم اسی انجام سے دوچار ہوگے جس سے وہ ہوئے تھے۔ یہ جانشینی اور خلافت بھی تمھیں متنبہ کررہی ہے کہ یہ سلسلہ کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشا نہیں۔ ایک کی جگہ دوسرے کو یہاں لا بسانا بے مقصد اور ایک عبث شغل نہیں ہے۔ کسی خرابی کے بعد گھر
Flag Counter