’لَا یُلْتَفَتُ إِلَیْہِ بَعْدَ تَصْحِیْحِ الْبُخَارِيِ‘ ’’امام بخاری کی تصحیح کے بعد ابن جریر کا قول ناقابلِ التفات ہے۔‘‘ اطباء کہتے ہیں کہ انسان کی طبعی عمر ایک سو بیس سال ہے۔ ساٹھ سال کے بعد اس میں ضعف واضمحلال شروع ہوجاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’أَعْمَارُ أُمَّتِيْ بَیْنَ السِّتِّیْنَ إِلَی السَّبْعِیْنَ، وَأَقَلُّہُمْ مَنْ یَّجُوْزُ ذَلِکَ‘[1] ’’میری امت کی عمر ساٹھ سے ستر سال کے مابین ہے اور بہت کم اس سے آگے بڑھنے والے ہوں گے۔‘‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی دی ہوئی عمر کو غنیمت سمجھ کر اللہ کی اطاعت میں عمر صرف کرنی چاہیے۔ مومن صادق کے لیے طویل عمر ایک بڑی نعمت ہے جبکہ کفر وعصیان میں زندگی گزارنے والے کے لیے طویل عمر وَبال جان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سائل نے پوچھا: بہتر انسان کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’خَیْرُکُمْ مَنْ طَالَ عُمُرُہٗ وَحَسُنَ عَمَلُہٗ،‘ قَالَ: فَأَيُّ النَّاسِ شَرٌّ؟ قَالَ: ’مَنْ طَالَ عُمُرُہٗ وَسَآئَ عَمَلُہٗ ‘[2] ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جس کی عمر لمبی اور عمل نیک ہو۔‘‘ سائل نے کہا: لوگوں میں سے برا کون ہے؟ فرمایا: ’’وہ جس کی عمر لمبی اور اس کا عمل برا ہو۔‘‘ مومن زندگی میں نیک عمل کرکے جنت میں بلند مقام حاصل کرتا ہے جبکہ کفر وعصیان میں مبتلا انسان اپنے لیے جہنم کی گہرائیوں میں اترنے کا سامان تیار کرتا ہے۔ ساٹھ سے ستر سال کے مابین امت کے افراد کی عمومی عمر ہے۔ انسان ساٹھ سال کا ہوجائے تو اسے اپنے آخری وقت سے غافل نہیں ہونا چاہیے بلکہ جانے کی |