’’اور وہ پکاریں گے: اے مالک! تیرا ربّ ہمارا کام تمام ہی کردے۔ وہ کہے گا: بے شک تم (یہیں) ٹھہرنے والے ہو۔‘‘ ’’مالک‘‘ سے مراد جہنم کا فرشتہ ہے۔ جہنمی اس سے کہیں گے: کہ اللہ ہمیں موت دے دے، ہماری ارواح قبض کرلے، تاکہ ہمیں آرام آجائے۔ فرشتہ جواب دے گا: یوں نہیں ہوگا، تم یہیں رہو گے۔ مرکے آرام پانے کا تصور تو کیا، یہاں تو عذاب میں تخفیف بھی نہیں ہوگی: ﴿ لاَ یُفَتَّرُ عَنْہُمْ وَ ہُمْ فِیْہِ مُبْلِسُوْنَ ﴾[1] ’’وہ ان سے ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اسی میں نا امید ہوں گے۔‘‘ جو اللہ کا انکار کرتا ہے اور حق کی تکذیب کرتا ہے اس کا یہی انجام ہے۔ جہنمیوں کے بارے میں ایک وضاحت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: ’ أَمَّا أَہْلُ النَّارِ الَّذِیْنَ ہُمْ أَہْلُہَا، فَإنَّہُمْ لَا یَمُوْتُوْنَ فِیْہَا وَلَا یَحْیَوْنَ، وَلٰکِنْ نَاسٌ أَصَابَتْہُمْ النَّارُ بِذُنُوْبِہِمْ (أَوْ قَالَ: بِخَطَایَاہُمْ) فَأَمَاتَتْہُمْ إِمَاتَۃً حَتَّی إِذَا کَانُوْا فَحْماً أُذِنَ بِالشَّفَاعَۃِ، فَجِيْئَ بِہِمْ ضَبَائِرُ ضَبَائِرُ، فَبُثُوّا عَلٰی أَنْہَارِ الْجَنَّۃِ، ثُمَّ قِیْلَ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ! أَفِیْضُوْا عَلَیْہِمْ، فَیَنْبُتُوْنَ نَبَاتَ الْحِبَّۃِ تَکُوْنُ فِيْ حَمِیْلِ السَّیْلِ ‘[2] ’’وہ جہنمی جو جہنم کے اصل مستحق ہیں (اور ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں) وہ تو اس میں نہ مریں گے نہ جییں گے، لیکن کچھ لوگ جنھیں ان کی غلطیوں اور گناہوں کی وجہ سے جہنم پکڑ لے گی، وہ انھیں ایک بار فوت کردے گی حتی کہ جب وہ جل کر کوئلہ ہوجائیں گے تو ان کے حق میں شفاعت کی اجازت مل جائے گی، چنانچہ انھیں گروہ گروہ کرکے لایا جائے گا اور جنت کی نہروں کے (کنارے) بکھیر دیا جائے گا، پھر کہا |