Maktaba Wahhabi

274 - 313
اسی طرح ابن ابی حاتم سے بھی انھوں نے ایک حدیث تقریبا انھی الفاظ سے ذکر کی ہے مگر اس میں بھی عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی ضعیف ہے۔ اور معناً بھی اس میں نکارت پائی جاتی ہے، نیز دیکھیے العلل المتناہیہ۔[1] ﴿اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرُ ﴾ ہمارا رب بڑا غفور ہے، اس کی بندگی میں ہم سے جو کمی کوتاہی ہوئی اس نے اسے معاف کردیا۔ ’’شکور‘‘ ہے کہ ہماری ایک ایک نیکی کا پھل ہمیں ملا ہے بلکہ ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر ملا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ان دونوں صفات کے بارے میں پہلے آیت نمبر۳۰ کے تحت ضروری وضاحت گزری ہے اس کی طرف مراجعت کرلی جائے۔ ﴿الَّذِیْ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِنْ فَضْلِہٖ﴾ ’’جس نے محض اپنے فضل واحسان سے ہمیشہ رہنے والے گھر میں ہمیں اتارا ہے۔‘‘ گویا یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ نہیں اس کا فضل ہے۔ اس کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ’’دارالمقامۃ‘‘ ہے۔ ہمیشہ رہنے کا گھر ہے۔ رہنے کی جگہ تو دنیا میں بھی تھی مگر ہمیشگی کے لیے نہیں۔ دنیا سے قبر میں، قبر سے حشر میں۔ دار المقامہ کو ’’جنۃ الخلد‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ [2] دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی کو ’’نصب‘‘ یعنی تکلیف اور مشقت نہیں اٹھانی پڑے گی، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا: ﴿لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا﴾ [3] ’’بے شک ہم نے اپنے اس سفر سے تو بڑی مشقت پائی۔‘‘ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ’’لغوب‘‘ (کسی قسم کی تھکاوٹ) نہیں ہوگی۔ دنیا میں گھر تھے مگر وہاں آنے جانے میں مشقت اور اس کے نتیجے میں تھکاوٹ۔ مگر یہاں نہ مشقت نہ ہی تھکاوٹ کہ آرام کی فکر ہو۔ بلکہ ہر لمحہ چاق چوبند ہوں گے۔
Flag Counter