Maktaba Wahhabi

273 - 313
یہاں جنت میں چلے جانے کے بعد جب تمام غم ختم ہوجائیں گے تو اہلِ جنت سکھ کا سانس لیں گے اور اللہ کا شکر اور اس کی حمد وثنا بیان کریں گے۔ غم سے کیا مراد ہے؟ اہل تفسیر کی آرا مختلف ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ ہر قسم کا غم اس کا مصداق ہے۔ دنیا دار الحزن ہے، اور اس میں جو ہموم وغموم ہیں جنت میں وہ بھی سب ختم۔ دنیا میں حسنات کی قبولیت وعدمِ قبولیت کا غم، قبر وقیامت کا غم، حساب کتاب کا غم، جہنم کا غم، غرض یہ کہ جنت میں نہ ماضی کا پچھتاوا نہ مستقبل کا غم۔ دنیا میں مومن کو فکر وغم سے فرصت نہیں بلکہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے۔ جنت میں اللہ تعالیٰ تمام غموں سے نجات دے دے گا، بلکہ اس میں جنت کی نعمتوں کے دائمی ہونے بھی اشارہ ہے کیوں کہ جیسے غم کسی چیز کے نہ ملنے کا ہوتا ہے اسی طرح حاصل ہونے کے بعد اس کے چھن جانے کا بھی ہوتا ہے۔ گویا اب مومن ہمیشہ عیش وعشرت سے رہیں گے اور موت کو بھی وہاں موت آجائے گی۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام طبرانی رحمہ اللہ کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا الٰہ الا اللہ پڑھنے والوں کو نہ موت کے وقت گھبراہٹ ہوگی، نہ قبروں میں نہ محشر میں، گویا میں ان کو صور پھونکے جاتے وقت دیکھ رہا ہوں، وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اور کہتے ہوئے اٹھیں گے: ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ مگر یہ روایت صحیح نہیں۔ علامہ ہیثمی نے اسے مجمع الزوائد[1] میں ذکر کرکے فرمایا ہے: فِیْہِ جَمَاعَۃٌ لَمْ اَعْرِفْہُمْ ’’اس میں راویوں کی ایک جماعت ہے جنھیں میں نہیں پہنچانتا۔‘‘
Flag Counter