سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ یہ رائے علامہ زمخشری کی ہے اور اس میں ان کے اعتزال کا اثر ہے۔ یہی رائے امام رازی اور مولانا اصلاحی کی بھی ہے۔ مگر پہلے ہم حضرت ابن عباس، مجاہد، حسن بصری سے نقل کر آئے ہیں کہ وہ ’’ظالم‘‘ سے کافر مرا دلینے کے ساتھ ساتھ جنت کی بشارت کا مستحق مقتصدین اور سابقین کو قرار دیتے ہیں اور سورۃ الواقعہ میں بیان ہونے والے مراتبِ ثلاثہ کی طرح ظالم کو اصحاب المشئمہ اور مقتصدین کو اصحاب المیمنۃ اور سابقین کو سابقین الاوّلین میں شمار کرتے ہیں۔ اور مولانا اصلاحی نے اس کا حوالہ بھی دیا ہے اس لیے یہاں صرف ’’سابقین بالخیرات‘‘ ہی کو جنت کی بشارت کا حق دار سمجھنا درست معلوم نہیں ہوتا۔ ﴿جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا﴾ عدن کے معنی کسی جگہ قرار پکڑنے اور ٹھہرنے کے ہیں جس میں ہمیشگی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ کیوں کہ جہاں اطمینان ہو وہی ہمیشہ رہنے کی جگہ ہوسکتی ہے۔ اور وہ جنت ہے نہ کہ دنیا۔ امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ﴿جنت عدن﴾ یعنی رہنے کی جگہ کو پہلے ذکر کیا اور اس میں داخل ہونے کو بعد میں۔ اس لیے کہ اس اسلوبِ بیان میں داخل ہونے والے کو اطمینان دلانا ہے اور داخلے سے پہلے مدخل ومسکن کا تعارف ہے تاکہ اسے کوئی توقف وتامل نہ ہو۔ ﴿یُحَلَّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ﴾ ﴿ یُحَلَّوْنَ ﴾ میں اشارہ ہے کہ انہیں فوراًجنت میں داخل کیا جائے گا اور جنت میں داخل ہوتے ہی انہیں سونے کے کنگن پہنا دئیے جائیں گے۔ یوں نہیں کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ہونے کے بعد پہلے کنگن پہنائے جائیں گے پھر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (رازی وغیرہ) ’’ أَسَاوِرَ ‘‘ جمع الجمع ہے ’’اسورۃ‘‘ کی اور ’ اَسْوِرَۃٌ‘ جمع ہے ’ سَوَارٌ‘ کی۔ اور اس سے قبل ’’من‘‘ تبعیضیہ ہے۔ یعنی سونے کے بنے ہوئے بعض کنگن پہنائے جائیں گے۔ یہ مقربین کا زیور ہوگا ان کے علاوہ ’’ابرار‘‘ کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے جیسے ان کے بارے میں سورۃ الدھر میں ہے ﴿وَ حُلُّوٓا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّۃٍ﴾ (الدھر:۲۱) اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ |