Maktaba Wahhabi

265 - 313
شہید ہوگیا۔ [1] یہ اور اسی موضوع کی دیگر احادیث وواقعات سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبۂ مسابقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک مسلمان اسی جذبہ پر عمل کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے اور بلند ترین مقام پر سرفرازی سے نوازا جاتا ہے۔ پہلی صف میں حاضری کا ثواب بھی اسی جذبۂ مسابقت سے حاصل ہوتا ہے۔ جمعہ کے روز اوّل وقت حاضر ہونا اور پہلی صفوں میں بیٹھنے کا عظیم اجر اسی جذبہ سے پایا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے صدقہ وخیرات کرکے دوسروں کے لیے مثال بننے والا ان کے صدقہ میں برابر کا اجر وثواب حاصل کرتا ہے۔ اسی جذبہ سے سرشار خوش نصیب وراثتِ دینی کی ادائیگی میں بھی کسی ملامت کی پروا نہیں کرتے اور تبلیغِ حق کا کوئی موقعہ ضائع نہیں ہونے دیتے۔ اور یہ سب توفیق انہیں ’’باذن اللہ‘‘ اللہ کے حکم سے حاصل ہے۔ اس میں ان سابقین کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ یہ نیکی میں آگے بڑھنے کی سعادت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خاص عنایت ہے اور یہ کمال بھی اللہ کی عطا ہے۔ اگر اللہ کی مرضی وتوفیق نہ ہو تو کوئی ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ﴿ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ﴾ یہ بہت بڑا فضل ہے جو انہیں حاصل ہے۔ ’’ذلک‘‘ کا اشارہ ’’وراثت کتاب‘‘ اور ’’اصطفاء‘‘ کی طرف ہے۔ یعنی یہ بہت بڑا فضل ہے کہ تمہیں اللہ نے اپنی کتاب کا وارث بنایا اور تمہیں منتخب فرمایا۔ اور اس اشارے کا امورِ خیر میں سبقت لے جانے والے بھی مصداق ہیں کہ سابق بالخیرات کا اعزاز بہت بڑا فضل وانعام ہے کہ اللہ نے انہیں ہر نیکی میں کوئے سبقت لے جانے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ یہ خوش قسمت امت میں سب سے افضل ہیں جن کے پیش رو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہاں یہ بات بھی فرمائی ہے کہ جب اس آیت کا مصداق یہ امت ہے جسے کتاب کا وارث بنایا گیا ہے تو علمائے امت سب سے زیادہ اس اعزاز کے مستحق ہیں۔ علمانے ہی انبیاء کرام کے وارث ہیں۔ علم اور اہلِ علم کے مقام مرتبہ کے لیے شائقین علامہ ابن عبدالبر کی جامع بیان العلم اور حافظ ابن قیم کی مفتاح دارالسعادۃ ملاحظہ فرمائیں۔
Flag Counter