اور آلِ عمران[1] میں بیان ہوا ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ اَلتَّؤَدَۃُ فِیْ کُلِّ شَیئٍ خَیْرٌ اِلَّا فِیْ عَمَلِ الْآخِرَۃِ۔ [2] ’’تاخیر ہر معاملہ میں بہتر ہے، مگر آخرت کے لیے عمل میں تاخیر بہتر نہیں۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ بَادِرُوْا بِالْاَعْمَالِ فِتَناً کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ یُصْبِحُ الرَّجُلْ مُؤْمِناً وَیُمْسِیْ کَافِراً، اَوْ یُمْسِیْ مُؤْمِناً وَیُصْبِحُ کَافِراً، یَبِیْعُ دِیْنَہٗ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا ‘[3] ’’اعمال کرنے میں جلدی کرو، ایسے فتنوں کے آنے سے پہلے جو رات کے اندھیرے ٹکڑوں کی طرح (یکے بعد دیگرے) رونما ہوں گے، آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر یا شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کافر، وہ اپنے دین کو دنیا کے معمولی سامان کے عوض فروخت کر دے گا۔‘‘ گویا فتنوں کے دور میں لوگوں کی نظریں دنیا پرستی میں اس حد تک بڑھ جائیں گی کہ دنیوی مفادات کے لیے اپنے دین وایمان کا سودا کرنے میں بھی کوئی حجاب محسوس نہیں کریں گا۔ بہروپیوں کی طرح صبح وشام اپنے ایمان کا سودا کریں گے۔ ایسے حالات کے پیدا ہوجانے سے پہلے اعمال صالحہ کے اہتمام اور ان کے کرنے میں جلدی کا حکم فرمایا ہے۔ جیسے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ اِغْتَنِمْ خَمْساً قَبْلَ خَمْسٍ، حَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقْمِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ، وَشَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ، |