واقف ہے اور ہر چیز پر اس کی نظر ہے۔ ﴿ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ﴾ ’’ثم‘‘ حرف عطف ہے اور تراخی کے لیے ہے۔ اس کا عطف ’’اوحینا‘‘ پر ہے۔ یعنی پہلے یہ کتابِ حق وحی کے ذریعے آپ پر نازل کی، پھر اس کتاب کا وارث ہم نے انہیں بنایا جنھیں ہم نے منتخب کیا، چنا۔ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے۔ آیت میں ’’اصطفینا‘‘ کے لفظ سے اس امتِ محمدیہ کی عظمت کی طرف اشارہ ہے۔ کیوں کہ ’’اصطفاء‘‘ کے معنی صاف اور خالص چیز لینے کے ہیں اور اس کا اکثر استعمال انبیائے کرام اور اللہ کے منتخب بندوں پر ہوا ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ﴾[1] ’’اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی۔‘‘ ایک اور مقام پر ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی ٰادَمَ وَ نُوْحًا وَّ ٰالَ اِبْرَاہِیْمَ وَ ٰالَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ﴾ [2] ’’بے شک اللہ نے آدم اور نوح کو اور ابراہیم کے گھرانے اور عمران کے گھرانے کو جہانوں پر چن لیا۔‘‘ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کا ذکر کرکے فرمایا گیا ہے: ﴿وَ اِنَّہُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ ﴾ [3] ’’اور بلاشبہ وہ ہمارے نزدیک یقینا چنے ہوئے بہترین لوگوں سے تھے۔‘‘ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں [4] اور سیّدہ مریم صدیقہ علیہا السلام کے بارے میں [5] میں بھی منتخب ہونے کا ذکر ہوا ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا: ﴿قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی﴾ [6] |