﴿ہُوَ الْحَقُّ﴾ جملۂ حصر ہے کہ وہی حق ہے۔ حق کے متلاشیوں کو اسے حرزِ جان بنانا چاہیے۔ اس سے پہلے کی کتابیں اپنے اپنے دور میں حق تھیں۔ لیکن ان میں تحریف ہوجانے کی وجہ سے اب وہ حق نہیں رہیں۔ توحید کی بجائے شرک کی آمیزش ان میں کردی گئی ہے۔ احکامِ الٰہی کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس لیے حق کی کتاب اب یہی ہے۔ نہ اس میں باطل کا تصور ہے نہ ہی کسی ریب وتردد کا ۔ ﴿مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ﴾ یہ کتاب تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے کہ وہ منزل من اللہ کتابیں ہیں۔ یا یہ کہ ان کی مصدق ہے جو پہلی کتابوں میں اصولی مسائل منزل من اللہ ہیں۔ رہے وہ مسائل جو ان کے ماننے والوں نے اختراع کرلیے تھے یا جن میں تحریف کر دی گئی تھی ان کی قرآن تصدیق نہیں بلکہ تردید کرتا ہے۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ یہ کتاب ان پیش گوئیوں کو سچا ثابت کر رہی ہے جو تورات میں آخری نبی اور اس کے ہاتھ پر آتشی شریعت کے حوالے سے بیان ہوئی ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی نرالی کتاب نہیں نہ اس کی تعلیمات پہلی کتابوں کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ اس میں اسی حق سچ کی دعوت ہے جو تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے۔ پہلی کتابوں کی یوں تصدیق بجائے خود اِس کتاب کے حق ہونے کی دلیل ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کتاب پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے ہی پہلی کتابوں کی تعلیمات کی موافقت کی خبر دی ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ بِعِبَادِہٖ لَخَبِیْرٌ﴾ کیوں کہ اللہ ہی ہر چیز کے حقائق سے خبردار ہے۔ وہ اپنے بندوں کو خود ان سے زیادہ جانتا ہے۔ ان کے باطن سے آگاہ ہے اور ان کے ظاہر کو بھی دیکھتا ہے۔ اس لیے اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا ہے اور اس پر کتابِ حق وحی کی ہے تو اس لیے کہ وہ انہی کو اس عظیم منصب کا حق دار سمجھتا ہے۔ اور جو کتابِ حق دی ہے وہ اس کے بندوں کی راہنمائی کے لیے نہایت موزوں اور ان کی مصلحت کے عین مطابق ہے۔ کیوں کہ وہی اپنے بندوں کی ضروریات سے |