Maktaba Wahhabi

248 - 313
جہاں توحید کے منافی ہے وہاں انسان کی تذلیل کا بھی باعث ہے۔ جب کہ اسلام گناہ گار کو کسی دوسرے انسان کے سامنے گناہ کے اعتراف کا پابند نہیں کرتا بلکہ وہ اسے آقا وغلام کا معاملہ قرار دیتا ہے اور کسی بھی انسان کے سامنے شرمندہ ہونے کی بجائے تنہائیوں میں کسی وقت اپنے آقا کے سامنے ندامت وتوبہ کا اقرار کرتا ہے۔ تو اللہ اس کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ ﴿ شَکُوْرٌ﴾ یہ ’’شکر‘‘ سے مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انعام کرنا اور ان کی معمولی عبادت گزاری پر وافر جزا دینا مراد ہے۔ ہم روز مرہ کے معاملات میں اپنے محسنین کے لیے شکریہ کا لفظ بولتے ہیں وہ بھی اسی ’’شکر‘‘ سے ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے شکر یہ اللہ کی قدر افزائی اور قدر دانی مراد ہے۔ جب کسی مالک کا خادم یا ملازم مالک کی دی ہوئی ذمہ داریوں سے بڑھ کر اطاعت بجا لاتا ہے اور مالک کے مفادات کا تحفظ دل وجان سے کرتا ہے تو مالک کے دل میں اپنے ملازم کی قدر بڑھے گی اور وہ دل ہی دل میں اس کا قدر دان ہوگا یہی مالک کا شکر ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تو بہت ہی قدر دان ہیں وہ اپنے بندے کے معمولی عمل کو بھی نظر انداز نہیں فرماتے، یہ اس کی قدر دانی ہی تو ہے کہ زندگی کے چند دنوں میں کی ہوئی نیکی پر ہمیشہ کے لیے جنت کی نعمتوں سے نواز دیتے ہیں۔ بلکہ انسان ستر سال تک کفر وشرک میں مبتلا رہے پھر دولت ایمان میسر آجائے تو اس پر بھی جنت سرمدی کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ انسان کا عمل کوتا ہوں اور معصیتوں سے ملا ہوا ہوتا ہے (الا ما شاء اللہ) مگر اللہ تعالیٰ اسے خالص اجر وثواب سے نوازتے ہیں جس میں جفا وکدورت کا کوئی شائبہ نہیں ہوگا۔ آیت میں اطاعت گزاروں کے بارے میں اجر وثواب دینے بلکہ ان کے اعمال کے تناسب سے زیادہ نوازشوں کے نوازنے کا ذکر ہے۔ اسی مناسبت سے
Flag Counter