’’اپنے رب سے معافی مانگ لو،یقینا وہ ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والا ہے۔‘‘ یوں نہیں فرمایا: ﴿اِنَّہٗ غَفَّارًا﴾ بلکہ فرمایا: ﴿اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا﴾ کہ وہ ازل سے ابد تک، ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بخشش ومغفرت دنیا اور آخرت دونوں میں ہے۔ احادیث میں ہے کہ مومن کو ایک کانٹا بھی چبھے تو اس کی کوئی غلطی معاف کردی جائے گی، بیمار ہو، کوئی نقصان ہو یا کوئی پریشانی آئے تو یہ سب خطاؤں کی معافی کا باعث بنیں گی۔ آخر میں اگر پھر بھی کچھ بچ گیا تو اس کی وفا داریوں کی بنا پر اسے معاف کردیا جائے گا۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ نامۂ اعمال ہی سے انہیں صاف کردیا جائے یا اللہ تعالیٰ اپنے پاس بلا کے معافی کا اعلان کردے اور اسے رسوائی سے بچانے کے لیے باز پرس نہ کرے کہ تم دنیا میں یہ اور یہ کرتے رہے ہو۔ اطاعت گزاروں کی خطاؤں کو ہی نہیں ان کے اعمالِ حسنہ میں کمی کوتاہی ہوگی تب بھی ان پر پردہ پوشی فرما کے قبول کر لے گا۔ بلکہ جب تک اللہ تعالیٰ ان کوتاہیوں سے درگزر نہ فرمائے اس کی کوئی نیکی قبول ہی نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ انسان کتنا ہی اخلاص کا اہتمام کر لے پھر بھی کوئی نہ کوئی کوتاہی رہ جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی بخشش ومغفرت جہاں معصیتوں کے بارے میں ہے، وہاں قبولیت اعمال میں بھی ہے۔ ﴿اِنَّہٗ غَفُوْرٌ﴾ میں یہ بات بھی پیش نگاہ رہنی چاہیے کہ ’’بے شک وہی بے حد بخشنے والا ہے۔‘‘ تمام اوامر ونواہی، من جانب اللہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامرونواہی بھی درحقیقت من جانب اللہ ہیں۔ اس لیے ان کی نافرمانی یا کوتاہی میں انسان اللہ تعالیٰ کا مجرم ہے۔ اس لیے بخشنے اور معاف کرنے والا بھی وہی ہے۔ جیسے ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿نَبِّیْٔ عِبَادِیْٓ اَنِّیْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ﴾ [1] |