Maktaba Wahhabi

245 - 313
قرآنِ مجید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی یہ صفت غافر، الغفار اور الغفور کے الفاظ سے آئی ہے۔ الغفور میں غافر سے زیادہ مبالغہ ہے اور الغفار میں الغفور سے زیادہ مبالغہ ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے: کہ اللہ تعالیٰ غافر ہیں کہ نامۂ اعمال میں سیاہ کاریوں پر پردہ ڈال دیں گے، الغفور ہیں کہ گناہوں کو فرشتوں کی نگاہوں سے بھی چھپا دیں گے اور الغفار ہیں کہ اپنے بندوں کے دلوں سے بھی اس کی یاد بھلا دیں گے۔ بعض نے کہا ہے الغافر دنیا میں ہیں الغفور قبر میں ہیں اور الغفار میدانِ محشر میں۔ امام رازی رحمہ اللہ نے ایک اور عجیب بات فرمائی ہے کہ جس طرح الغافر، الغفور، الغفار اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اسی طرح معصیت کی بنا پر گناہ گاروں کے تین نام ہیں: ۱: ظالم: جیسے فرمایا: ﴿فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ ﴾ [1] پھر ان میں سے کوئی اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے۔ ۲: الظلوم: جیسے فرمایا: ﴿اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا﴾ [2] بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت ظالم، بہت جاہل ہے۔ ۳: الظلّام: جیسے فرمایا: ﴿قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ ﴾[3] کہہ دے اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ جو معصیت میں اسراف کرتا ہے وہ ظلاّم ہے۔ گو اشارہ ہے کہ اگر تم ظالم ہو تو میں غافر ہوں، تم اگر ظلوم ہو تو میں غفور ہوں، تم اگر ظلام ہو تو میں غفار ہوں۔ پھر انسان کی صفت تو متناہی ہے۔ ایک نہ ایک دن اسے ختم ہونا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کی صفت لامتناہی ہے وہ ہمیشہ سے ان صفات سے متصف ہے اور رہے گا۔ اس نے فرمایا: ﴿اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ﴾ [4]
Flag Counter